
مجیب:مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3577
تاریخ اجراء:21 شعبان المعظم 1446 ھ/ 20 فروری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میری شادی کو ڈیڑھ سال ہوگیا ہے اور میری اولاد نہیں ہے، ڈاکٹر سے علاج کروارہی ہوں، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ حمل کےلیے حیض کے ایام میں ہمبستری کرنی ہوگی، اس صورت میں حمل ہوسکتا ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ برائے کرم جواب ارشاد فرمادیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولاد کا ہونا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کے حصول کےلیے شریعت میں صرف جائز طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب موجود ہے جبکہ حالت حیض میں شوہر کےلیے اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا حرام بلکہ اس حالت میں ہمبستری حلال جان کر کر نے کو علماء نے کفر کہا ہے نیز اس حالت میں ہمبستری کرنا تو دور کی بات شوہر کے لیے عورت کی ناف کے نیچے سے گھٹنے کے نیچے تک کے حصے کو اپنے کسی بھی عضو سے بغیرکسی موٹےحائل کے چھونا، چاہے شہوت سے ہویا بغیر شہوت کے، بہر صورت ناجائز و حرام ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں ڈا کٹر کے کہنے پر آپ حیض کی حالت میں اپنے شوہر سے ہرگز ہرگز ہمبستری نہیں کرسکتیں کہ اولاد کا حصول ایک منفعت ہے اور شریعت مطہر ہ میں محض تحصیل ِمنفعت کےلیے حرام کام کی اجازت نہیں ہے۔ نیز ڈاکٹر کا اس کام کی ترغیب دلانا بھی جائز نہیں ہے۔
سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”من أتى حائضا، أو امرأة في دبرها، أو كاهنا، فقد كفر بما أنزل على محمد“ یعنی جو حائضہ عورت سے جماع کرے یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے یا کاہن کے پاس جائے، تو اس نےاس کا انکار کیا جومحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔(جامع ترمذی، جلد 1، صفحہ 242، رقم الحدیث :135، مطبوعہ: مصر)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”یعنی یہ تینوں شخص قرآن وحدیث کے منکرہوکر کافرہوگئے۔خیال رہے کہ یہاں سے شرعی کفر ہی مراد ہے اسلام کا مقابل۔ اوران سے وہ لو گ مراد ہیں جو عورت سے دبر(یعنی پچھلے مقام) میں یابحالتِ حیض صحبت کوجائزسمجھ کر صحبت کریں۔“(مراٰۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 308، مطبوعہ :مکتبہ اسلامیہ)
بدائع الصنائع میں ہے: ”يحرم القربان فی حالتی الحيض والنفاس“ یعنی: حیض و نفاس کی حالت میں جماع حرام ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 167، دار الحديث، القاهرة)
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے ’’و یمنع۔۔۔ وطؤها(یکفر مستحلہ)۔۔۔ و کذا مستحل وطء الدبر عند الجمھور‘‘ ملتقطا“ ترجمہ:اور حائضہ عورت سے وطی ممنوع ہے، اور اس کو حلال جاننے والے کی تکفیر کی جائے گی، اور جمہور کے نزدیک یہی حکم عورت کے پچھلے مقام میں وطی کو حلال جاننے والے کا ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار، جلد 1، صفحہ 533، 542، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے "کلیہ یہ ہےکہ حالتِ حیض میں و نفاس میں زیرِناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلاکسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسمِ عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے، تمتع جائزنہیں یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھونا بلاشہوت بھی جائز نہیں۔"(فتاوٰی رضویہ، ج 04، ص 353، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے "ہاں مجردتحصیل منفعت کےلئے کوئی ممنوع مباح نہیں ہوسکتا مثلا جائز نوکری تیس روپیہ ماہوار کی ملتی ہواور ناجائز ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ کی تو اس ایک سو بیس روپے ماہانہ نفع کے لئے ناجائز کا اختیار حرام ہے۔"(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 197، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم