Baap Ka Apni Baligha Beti Ko Gale Lagana

 

باپ کا اپنی بالغہ بیٹی کو گلے لگانا

مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر:WAT-3515

تاریخ اجراء: 23رجب المرجب 1446ھ/24جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا میں اپنی بیٹی کو گلے لگا سکتا ہوں جو بلوغت کو پہنچ چکی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! اگر آپ اپنی بالغہ بیٹی کو بطور شفقت و محبت  گلے لگانا چاہیں  تو لگاسکتے ہیں  بشرطیکہ فتنے  کا  اندیشہ  نہ ہو  اور اگر فتنے کا اندیشہ ہو  تو پھر آپ  کو  گلے لگانے کی  اجازت نہیں ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے :" حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کہ حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: عورت کے لئے سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی: یہ کہ کوئی نامحرم اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے گلے سے لگالیا۔ ان سب صورتوں میں ابتدائے لقا کا وقت کہاں تھا کہ معانقہ فرمایا گیا، یوں ہی پیار سے اپنے بچوں، بھائیوں، زوجہ کو گلے لگانا شاید اول ملاقات ہی پر جائز ہوگا۔ پھر ممانعت کی جائے گی؟۔"(فتاوی رضویہ ، جلد08،صفحہ 624،رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)                                               

   ایک اور مقام پر فتاوی رضویہ میں ہے :" کپڑوں کے اوپر سے معانقہ بطور بروکرامت واظہار محبت، بے فساد نیت ومواد شہوت بالاجماع جائز، جس کے جواز پر احادیث  کثیرہ وروایات شہیرہ ناطق۔ "(فتاوی رضویہ ، جلد 08، صفحہ603، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم