
مجیب: مولانا اعظم عطاری
مدنی
فتوی نمبر: WAT-2166
تاریخ اجراء: 02جمادی الاول1445 ھ/17نومبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی بچے کی
اُس کے والد کو اِس نیت سے شکایت لگانا کہ بچے کی اصلاح اور
درست تربیت ہو جائے، یہ درست
ہے۔ غیبت یا چغلی نہیں جبکہ فقط برائی کرنا
مقصود نہ ہو، چنانچہ ”غیبت کی تباہ کاریاں“ کتاب میں ہے:
جو اِصلاح کر سکتا ہو، اُس سے صِرف اِصلاح کی نیّت سے شکایت کی
جا سکتی ہے مَثَلاً مُرید کی پیر سے، بیٹے کی
باپ سے،بیوی کی شوہرسے، رعایاکی بادشاہ سے،شاگرد کی
استاذسے شکایت کی جا سکتی ہے۔"(
غیبت کی تباہ کاریاں، صفحہ239، مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ
)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم