کیا بیوہ عورت کیلئے سونا پہننا جائز ہے؟

بیوہ عورت کے لئے سونا پہننے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا بیوہ عورت کونماز یا نماز کے علاوہ  سونا پہننا ناجائز ہے؟ ہماری امی ہیں ان کی عمر تقریبا 70 سال ہے وہ سونا پہنتی ہیں۔ یہ پہننا جائز ہے عورت کے لیے یا ثواب یا گناہ ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اسلامی تعلیمات کے مطابق بیوہ عورت کو  عدتِ وفات کے دوران، اسی طرح جس عورت کوتین طلاقیں یا طلاقِ بائن ہوجائے، اس پر دورانِ عدت سوگ کرنا واجب ہے، جس کے پیشِ نظر عورت  پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کی زینت کو ترک کردے مثلاً کسی قسم کے زیور  یہاں تک کہ انگوٹھی، چھلا  وغیرہ، مہندی، سرمہ، نئے  کپڑے یا بدن پر خوشبو وغیرہ کا استعمال، بلا ضرورتِ شرعی تیل لگانا، کنگھا کرنا، ریشم کا کپڑا پہنناچھوڑ دے۔ البتہ جب  عدت مکمل ہوجائے تو اب اس کے لئے شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے نکاح کرنا،  زیب وزینت اختیارکرنا، زیوارت پہننا   بالکل جائز ہے کہ یہی قرآن کریم سے ماخوذ حکمِ شریعت  ہے، بلا وجہِ شرعی اس سے روکنا احکامِ شریعت سے جہالت ہے۔

واضح رہے کہ! بعدِ عدت بناؤ سنگھار اور فیشن اختیار کرنے کا  وہ طریقہ  جو شرعاً ناجائز ہو وہ ناجائز ہی رہے گا۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں بیوہ عورت عدت وفات مکمل کرنے کے    بعد سونا  پہن سکتی ہے اور اسے پہن کر نما زپڑھنا بھی جائز ہے۔

اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے:

”فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۲۳۴)“

ترجمۂ کنز الایمان:تو جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو اے والیو! تم پر مُواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔(پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت 234)

تفسیر ابی سعود میں ہے:

”(فإذا بلغن أجلهن) أي انقضت عدتهن (فلا جناح عليكم) ايها الحكام و المسلمون جميعا (فيما فعلن في انفسهن) من التزين و التعرض للخطاب و سائر ما حرم على المعتدة (بالمعروف) بالوجه الذي لا ينكره الشرع“

یعنی جب ان کی عدت پوری ہوجائے، اے حکام اور مسلمانو! تم میں سے کسی پر کوئی گناہ  نہیں اس کام میں جو عورتیں خود زینت اختیار کریں یا کسی کو نکاح کا پیغام بھیجیں اور وہ تمام کام جو معتدہ پر حرام تھے بشرطیکہ ایسے طریقہ پر ہوں جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ (تفسیر ابی سعود، جلد 1، صفحہ 232، دار احیاء التراث  العربی، بیروت)

تفسیر سمرقندی میں ہے:

”(فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ) يعني انقضت عدتهن (فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ) أي فلا أثم عليكم (فِيما فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ) من الزينة  والكحل والخضاب وذلك أن المرأة إذا انقضت عدتها فكان أولياؤها يمنعونها من الزينة فأباح الله تعالى لهن الزينة بعد العدة“

یعنی جب ان کی عدت پوری ہوجائے ، تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس کام میں جو عورتیں کریں یعنی زینت  کرنا ، سرمہ لگانا، مہندی لگانا۔ اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ  جب عورت کی عدت پوری ہوجاتی، تو اس کے اولیا اس کو زینت سے منع کیا کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے بعدِ عدت زینت کو مباح قرار دے دیا۔ (تفسیر سمرقندی، جلد 1، صفحہ 180، دار الفکر، بیروت)

مشہور مفسر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ما" سے  ساری وہ چیزیں مراد ہیں جو عدت میں عورتوں پر حرام ہوگئی تھیں یعنی عدت پوری ہوچکنے پر عورتیں بناؤ سنگھار یا دوسرا نکاح، گھر سے نکلنا وغیرہ جو کچھ بھی کریں، اس میں اے حاکمو! تم پر کوئی گناہ نہیں  مگر بالمعروف یہ فعلن کے فاعل کا حال ہے اور اس سے جائز کام مراد ہیں یعنی جو جائز چیزیں عدت کی وجہ سے اس پر حرام ہوگئی تھیں وہ سب کرسکتی ہیں، ناجائز کام جو عدت سے پہلے بھی حرام تھے وہ اب بھی حرام ہیں۔ (تفسیرِ نعیمی، جلد 2، صفحہ 493، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

بہار شریعت میں ہے” سوگ کے یہ معنی ہیں کہ زینت کو ترک کرے یعنی ہر قسم کے زیور چاندی سونے جواہر وغیرہا کے اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے اگرچہ سیاہ ہوں نہ پہنے اورخوشبو کا بدن یا کپڑوں میں استعمال نہ کرے اور نہ تیل کا استعمال کرے اگرچہ اُس میں خوشبو نہ ہو جیسے روغن زیتون اور کنگھا کرنا اور سیاہ سرمہ لگانا۔ یوہیں سفید خوشبودار سرمہ لگانا اور مہندی لگانا اور زعفران یا کسم یا گیرو کا رنگا ہوا یا سُرخ رنگ کا کپڑا پہننا منع ہے ان سب چیزوں کا ترک واجب ہے۔ (بہار شریعت، ج 2، حصہ 8، ص 242، مکتبۃ المدینہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”عورتوں کو سونے چاندی کا زیور پہننا جائز ہے۔۔۔ بلکہ عورت  کا باوصف قدرت بالکل بے زیور رہنا مکروہ ہے کہ مردوں سے تشبہ ہے۔ حدیث میں ہے:

کان رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و سلم یکرہ تعطر النساء و تشبھھن بالرجال

(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم عورتوں کے تعطر (یعنی بے زیور رہنے) کو اور  مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کو ناپسند فرماتے)۔ (حدیث مذکور میں لفظ "تعطر" استعمال  ہوا ہے جس کا معنی خوشبو لگانا ہے، مگر) مجمع البحار میں ہے:

قیل ارادتعطل النساء باللام و ھی من لاحلی علیھا و لا خضاب و اللام و الراء یتعاقبان

(کہا گیاہے کہ لفظ مذکور سے ''تعطل النساء'' حرف  لام کے ساتھ مراد ہے اور اس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو نہ تو زیور پہنے ہوں نہ خضاب لگائے ہوں پس یہاں لام اور  راء ایک دوسرے کی جگہ آتے ہیں)حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے مولی علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا:

یاعلی مرنسائک لایصلین عطلا  ۔ رواہ ابن اثیر فی النھایۃ

(اے علی! اپنے مخدرات کو حکم دو کہ بے گہنے نماز نہ پڑھیں۔ امام ابن اثیر نے النہایہ میں اس کو روایت فرمایا) ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورت کا بے زیور نماز پڑھنا مکروہ جانتیں اور فرماتیں: کچھ نہ پائے تو ایک ڈورا ہی گلے میں باندھ لے۔مجمع البحار میں ہے:

عائشۃ رضیﷲ تعالٰی عنھا کرھت ان تصلی المرأۃ عطلا ولو ان تعلق فی عنقھا خیطا

(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورتوں کے بغیر زیور نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتیں (اور فرمایا کرتیں) اگر اور کچھ نہ ہو تو ایک ڈورا ہی گلے میں لٹکالے)۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ126 ،127، 128، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3849

تاریخ اجراء: 21 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/19 مئی 2025 ء