
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کاسمیٹک اور میڈیکل فیلڈ میں بوٹوکس (Botox)نامی انجکشن استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ چہرے کے مخصوص پٹھوں کو عاےرضی طور مفلوج کر دیتا ہے۔ اور عموماً زیب و زینت، مثلا: چہرہ کی جھریاں ختم کرنے، چہرہ کو نرم و ملائم، پتلا دِکھانے اور (Eye bags) یعنی آنکھوں کے نیچے کا ابھرن دور کرنے وغیرہ مقاصد کے لیے لگوایا جاتا ہے۔تو اس پر یہ رہنمائی فرما دیں کہ ایسے انجکشن لگوانا اور ڈاکٹر حضرات کا اسے لگانا، جائز ہے یا نہیں؟ سائل: مولانا نثار مدنی (امریکہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بوٹوکس انجکشن لگوانا، جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی غیر شرعی امر، مثلاً: غیر محرم کو دکھانے یا دھوکہ دہی کی نیت وغیرہ نہ ہو۔
تفصیل:
اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ بوٹوکس زیب و زینت کا ایک جدید طریقہ ہے جس میں دوائی کو انجیکٹ کرکے چہرے کی خوبصورتی کو بہتر کیا جاتا ہے اور اس سے کوئی محظورِ شرعی بھی لازم نہیں آتا، کیونکہ یہ مثلہ کے حکم میں نہیں ہے؛کہ مثلہ کا حکم ایسے زخم یا کَٹ پر صادر آتا ہے جس سے بدن کو بگاڑنے کی نوعیت پیدا ہوتی ہو، جبکہ یہاں دوائی انجیکٹ کرنے سے بدن بگڑتا نہیں، بلکہ انجکشن لگنے کے بعد بھی بدن کی ساخت حسبِ سابق رہتی ہے یا اس سے بدنمائی دور ہو کر مزید بہتری آتی ہے ، کیونکہ چہرے کی جھریاں اور آنکھوں کے نیچے کی جگہوں کا سوجھ جانا (Eye bags) عیوب و بدنمائی ہیں اور اس عمل میں ان ظاہری عیوب کا ازالہ ہے جو چہرے کے حسن میں اضافہ کرتا ہے اور چہرے کی خوبصورتی میں بگاڑ پیدا کرنے والی چیزوں کا ازالہ کرنا، جائز ہے جیسا کہ پلکوں، ابرو (Eyebrow) اورداڑھی کے علاوہ چہرہ کے باقی بالوں کوصاف کرنا، جائز ہے۔
خوبصورتی کے لیے ادویات کے استعمال کا جواز بیان کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
”العلة في تحريمه أما لكونه شعار الفاجرات أو تدليسا وتغيير خلق الله عز وجل، ولا يمنع من الأدوية التي تزيل الكلف وتحسن الوجه للزوج وكذا أخذ الشعر منه“
ترجمہ: اس کے حرام ہونے کی وجہ اس کا فاسقہ و فاجرہ عورتوں کا شعار ہونا یا دھوکہ دہی اور تغییر خلق اللہ کا پایا جانا ہو سکتا ہے، اور ان ادویات سے منع نہیں کیا گیا جو چہرے کے داغ دھبے کو دور کریں اور شوہر کے لیے چہرے کو خوبصورت بنائیں اور اسی طرح چہرے کے بال لینا بھی جائز ہے۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد 20، صفحہ 193دار احیاء التراث العربی، بیروت)
مثلہ کے متعلق فتح القدیر، النہر الفائق، البنایہ اور العنایہ وغیرہ کتب احناف میں ہے:
والنظم للاول”ومثلة إذا سودت وجهه وقطعت أنفه ونحوه“
ترجمہ: اور مثلہ اس صورت کو کہتے ہیں جب کسی کا چہرہ سیاہ کر دیا جائے یا اس کی ناک وغیرہ کاٹ دی جائے۔ (فتح القدير للكمال بن الهمام، جلد 05، صفحہ 451، دار الفکر، بیروت)
ہر طرح کا زخم مثلہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جو بگاڑ پیدا کر دے جیسا کہ النہر الفائق اور فتح القدیر وغیرہ کتب احناف میں ہے:
والنظم للآخر”إذ ليس كل جرح مثلة بل هو ما يكون تشويها كقطع الأنف والأذنين وسمل العيون، فلا يقال لكل من جرح مثل به“
ترجمہ: کیونکہ ہر زخم کو مثلہ نہیں کہتے، بلکہ یہ وہ زخم ہوتا ہے جو بگاڑ پیدا کرتا ہے جیسا کہ ناک و کان کو کاٹ دینا، اور آنکھوں کو پھوڑ دینا۔لہذا، ہر زخم کو مثلہ نہیں کہا جائے گا۔(فتح القدير للكمال بن الهمام، جلد 03، صفحہ 09، دار الفکر، بیروت)
چہرہ کے بالوں کے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”چہرہ کے بال لینا بھی جائز ہے جس کو خط بنوانا کہتے ہیں۔“ (بھار شریعت، جلد 03، صفحہ 585، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اشکال:
شریعت مطہرہ میں خود کو ایذاء و تکلیف میں مبتلاء کرنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے جبکہ یہاں تزین کے لئے انجکشن کی تکلیف میں مبتلا ہونا پایا جا رہا ہے۔ تو کیا یہ تکلیف مانع جواز نہیں ہے؟
الجواب:
شرعی لحاظ سے بدن کو ایسی تکلیف و ضرر ممنوع ہے جو بغیر کسی مصلحت کے ہو جبکہ یہاں تزین کی منفعت و مصلحت موجود ہے۔ جیسا کہ فقہائے کرام نے زیب و زینت کے لیے چہرہ کے بالوں کو اکھیڑنا، جائز قرار دیا ہے اگرچہ اکھیڑنے کے عمل میں ایذا و تکلیف کا معاملہ ہوتا ہے مگر چونکہ چہرے کا حسن مطلوب و محبوب ہوتا ہے اور اس سے کوئی محظورِ شرعی بھی لازم نہیں آ رہا تو اس بنیاد پر یہ معمولی تکلیف روا رکھی گئی ہے تو ایسے چہرہ کے عیوب کے ازالہ کی مصلحتِ معتبرہ کی موجودگی میں انجکشن کے عمل سے پہنچنے والی معمولی تکلیف بھی جائز ہے کہ اس عمل سے بھی چہرے کی بدنمائی دور ہو جاتی ہے۔ لہذا ایسے ہی یہاں انجکشن کے اس عمل میں بھی حرج نہیں۔
بدن کو تکلیف پہنچانے کے متعلق اصول بیان کرتے ہوئے البحرالرائق، المحیط الرضوی اور تبیین الحقائق وغیرہ کتب میں ہے:
واللفظ للاخر ”والأصل أن إيصال الألم إلى الحيوان لا يجوز شرعا إلا لمصالح تعود عليه“
ترجمہ: اصول یہ ہے کہ کسی بھی حیوان(خواہ انسان ہو یا جانور)کو تکلیف پہنچانا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے سوائے ان مصالح كے جو اسی کی جانب لوٹتے ہوں۔ (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، جلد 06، صفحہ 227، المطبعۃ الکبری الامیریہ، مصر)
چہرہ کے بالوں کو اکھیڑنے کے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ رد المحتار میں لکھتے ہیں:
”النمص: ومنه المنماص المنقاش اهـ ونتف الشعر ومنه، ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء“
ترجمہ: "النمص" بال اکھیڑنے کا آلہ، یعنی بالوں کو اکھیڑنا، اور یہ شاید اس بات پر محمول ہے کہ جب وہ غیر مردوں کے لیے تزین کی نیت سے ایسا کرے، وگرنہ اگر اس کے چہرہ پر بال ہوں جس سے اس کے شوہر کو نفرت ہوتی ہے تو اس کا ازالہ حرام ہونا بعید بات ہے؛ کیونکہ عورتوں کا خوبصورتی کے لیے زینت کرنا محبوب ہے، ہاں اس ممانعت کو اس صورت پر محمول کیا جاسکتا ہے جب ایسا بلا ضرورت کیا جائے کیونکہ منماص سے اکھیڑنے میں ایذا پہنچانا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 06، صفحہ 373، دار الفکر، بیروت )
توضیح: مذکورہ بالا جزئیہ میں علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بالوں کو کسی آلہ سے اکھیڑنے کے سبب پہنچنے والی ایذا کو اسی صورت میں مانعِ جواز قرار دیا ہے جبکہ وہ اکھیڑنا بغیر کسی ضرورت و مصلحت کے ہو، لیکن اگر یہ ایذا، زینت وغیرہ کسی ضرورت و مصلحت کے سبب ہو، تو اسے جائز قرار دیا ہے تو بالکل اسی طرح ہمارے مسئلہ میں بھی انجکشن کے سبب پہنچنے والی معمولی تکلیف بغیر کسی مصلحت کے نہیں، بلکہ بال اکھیڑنے سے پہنچنے والی تکلیف کے مثل یہ بھی زینت کے سبب ہے، لہذا، یہ ایذا و تکلیف جواز سے مانع نہیں۔
نوٹ:
تاہم یہ بات یاد رہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی چہرے کی جھریاں(Wrinkles) اور آنکھوں کے نیچے کی جگہوں کا ابھرن(Eye Bags) بیماری نہیں، بلکہ بڑھتی عمر کا تقاضا ہے، لہذاان مقاصد کے لئے بوٹوکس انجکشن لگوانا کسی بیماری کا علاج کرنا نہیں بلکہ محض زینت و خوبصورتی کے لئے ہوتا ہے، جیسا کہ میڈیکل کے اداروں نے بیان کیا ہے کہ ان کا علاج کروانے کی کوئی حاجت نہیں سوائے اس کے کہ خوبصورتی کےلیے ایسا کیا جائے۔چنانچہ
Cleveland Clinic – ایک معتبر امریکی ریسرچ سینٹر اور اسپتال کی ویب سائٹ – کے مطابق:
"Wrinkles are a normal part of aging... You don’t need to treat wrinkles unless you want to change how they appear." (ملتقطا)
”یعنی جھریاں بڑھتی ہوئی عمر کا عمومی تقاضا ہے۔آپ کو جھریوں کا علاج کرنے کی ضرورت نہیں جب تک کہ آپ اس کا ظاہری حلیہ نہ بدلنا چاہیں۔“
Mayo Clinic – ایک ممتاز و معتبر امریکی طبی ادارہ اور اسپتال کی ویب سائٹ– کے مطابق:
"Bags under eyes are usually a cosmetic concern... Bags under eyes are usually harmless and don't require medical care." (ملتقطا)
”یعنی آنکھوں کے نیچے کے ابھرن عموما ظاہری خوبصورتی سے متعلق باعث تشویش ہوتے ہیں، تاہم عموماً یہ بے ضرر ہوتے ہیں جن کے علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔“
لہذاجب یہ بیماری کا علاج نہیں بلکہ فقط زینت کے حصول کا ذریعہ ہے تو یہاں شریعت نے جو پردے کے احکام بیان کئے ہیں ان پر عمل ضروری ہوگا اور علاج کی وجہ سے جو رخصت ملتی ہے وہ نہیں ملے گی اور محض زینت کے لیے مرد ڈاکٹر کا عورت کو دیکھنا یا چھونا یا فی میل ڈاکٹر کا مرد کو چھونا شرعی ضرورت میں شامل نہیں ہوگا، لہذا اس بنیاد پر عورت کو مرد ڈاکٹر سے یا مرد کو عورت ڈاکٹر سے بوٹوکس انجکشن لگوانے کی اجازت نہیں، البتہ اگر کوئی بوڑھی و ضعیف العمر عورت ہو جس کے چہرہ کھولنے میں فتنے کا احتمال نہ ہو تو ایسی عورت کا مرد ڈاکٹر سے یہ انجکشن لگوانا جائز ہوگا۔
جوان عورت کا بغیر ضرورتِ شرعی کے مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا منع ہے، اس حوالے سے در مختار میں ہے:
”(وتمنع) المرأة الشابة (من كشف الوجه بين رجال۔۔۔لخوف الفتنة ) “
یعنی جوان عورت کو مردوں کے درمیان چہرہ کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے کہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (الدر المختار ورد المحتار، جلد1، صفحہ 406، دار الفکر، بیروت)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”اس طرح رفتہ رفتہ حاملان شریعت و حکمائے امت نے حکمِ حجاب دیا اور چہرہ چھپانا کہ صدر اول میں واجب نہ تھا واجب کردیا۔ نہایہ میں ہے:
سدل الشیئ علی وجھھا واجب علیھا۔
شرح لباب میں ہے:
دلت المسئلۃ علی ان المرأۃ منھیۃ عن اظھار وجھھا للاجانب بلاضرورۃ۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 551-552، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جوا ن عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے۔
فی الدرالمختار تمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لخوف الفتنۃ
اسی میں ہے:
اما فی زماننا فمنع من الشابۃ قھستانی۔
اور بڑھیا کے لئے جس سے احتمال فتنہ نہ ہو مضائقہ نہیں۔
فیہ ایضااما العجوز التی لاتشتھی فلا بأس بمصافحتھا ومس یدھا ان امن۔ملتقطا “ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 205-206، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
غیر محرم کو دیکھنے اور چھونے کی حرمت کے متعلق تحفۃ الفقہاء میں ہے:
”الأجنبيات و ذوات الرحم بلا محرم فإنه يحرم النظر إليها أصلا۔۔۔وأما المس فيحرم سواء عن شھوۃ او عن غیر شهوة، ملتقطا“
ترجمہ: اجنبی اور قریبی غیر محرم عورتوں کو دیکھنا اصلاحرام ہے، اور چھونا چاہے شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت مطلقا حرام ہے۔ (تحفۃ الفقھاء، جلد 03، صفحہ 333، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بیماری کے لیے جواز اور ظاہری مفعت کے لیے عدم جواز کے متعلق رد المحتار میں ہے:
”وكذا يجوز أن ينظر إلى موضع الاحتقان لأنه مداواة ويجوز الاحتقان للمرض،۔۔۔فلو احتقن لا لضرورة بل لمنفعة ظاهرة بأن يتقوى على الجماع لا يحل عندنا كما في الذخيرة، ملتقطا“
ترجمہ: ایسے ہی طبیب کے لیے حقنہ لینے والے کے مقام کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ علاج ہے، اور بیماری کے علاج کے لیے حقنہ کرنا جائز ہے۔لیکن اگر حقنہ کسی ضرورت(بیماری)کے سبب نہ ہو بلکہ ظاہری منفعت کے لیے ہو بایں طور پر کہ جماع پر قوت حاصل کرنے کے لیے ہو تو یہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے (لہذا، اس بنیاد پر نظر کرنا بھی جائز نہیں ہے)جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔ (رد المحتار، جلد 06، صفحہ 371، دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL -0311
تاریخ اجراء: 14 صفر المظفر 1447 ھ/09 اگست 2025 ء