کارمائن کلر والی چیز استعمال کرسکتے ہیں؟

کارمائن کلر والی چیز استعمال کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ آج کل کھانے پینے کی مختلف اشیاء، کاسمیٹک اور ٹیکسٹائل وغیرہ کی صنعتوں میں رنگ کے طور پر کارمائن کلر (E120) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کلر کوچنیل نامی ایک کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس کیڑے کو مارا جاتا ہے۔ مارنے کے بعد اُسے نمی سے بچاکر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کوٹ کر ، پیس کر غیر ضروری مواد کو الگ کیا جاتا ہے اور مطلوبہ اجزاء کا سفوف بنادیا جاتا ہے جس میں اس کیڑے کے جسمانی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ اور جس پروڈکٹ میں سرخ رنگ درکار ہوتا ہے اس میں پھر یہ شامل کر کے سرخ رنگ حاصل کر لیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جن میں کارمائن کلر ڈالا گیا ہو کیا ان اشیاء کا استعمال، کرنا جائزہےیا نہیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بیان کردہ تفصیل کے مطابق کیڑے سے تیار کئے جانے والے اس کارمائن کلرکا کھانے پینے والی کسی بھی چیز میں ڈالنا جائز نہیں اور ایسے کلر والی کسی چیز کا کھانا پینا بھی ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ کیڑے مکوڑے اورتمام حشرات الارض، خبیث اشیاء میں سے ہیں اور قرآن و حدیث کی رُو سے خبیث اشیاء کھانا پینا حرام ہے۔

البتہ کاسمیٹکس اور ٹیکسٹائل وغیرہ ایسی مصنوعات جن کا استعمال فقط بیرونی (External) طور پر ہوتا ہو، ان میں کارمائن کلر کا استعمال کیا جائے تو ایسی مصنوعات کو استعمال کرنا، جائز ہے، کیونکہ کارمائن کلر جس کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے اس میں بہنے والا خون نہیں ہوتا۔ اور ایسے کیڑے و حشرات الارض اگرچہ حرام ہوتے ہیں، لیکن یہ ناپاک نہیں ہوتے،بلکہ یہ پاک ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے کسی کیڑے سے بنایا گیا کلر بھی پاک ہو گا اور اس کا خارجی استعمال بھی جائز ہوگا۔

نوٹ: لپ اسٹک اور کاسمیٹک کی ایسی اشیاء جن کا استعمال ہونٹوں پر یا منہ کے اندر ہوتا ہے ان اشیاء میں اگر کارمائن کلر ڈالا گیا ہو تو ان کا استعمال مکروہ و ممنوع ہوگا، کیونکہ ہونٹوں پر زبان لگنے سے یا کھانے پینے کی چیز کے ساتھ مل کر اس لپ اسٹک وغیرہ کے حلق میں جانے کا احتمال رہتا ہے اور یوں اگر وہ اندر گئی تو ایک حرام چیز کا کھانا پینا لازم آئے گا۔ پھر یہ احتمال جتنا قوی ہوگا ممانعت کا حکم بھی اتنا سخت ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ (نبی) ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی (خبیث)چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں۔(القرآن، سورۃ الاعراف، آیت 157)

امام محمدبن احمدسرخسی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:

و المستخبث حرام بالنص لقولہ تعالی﴿وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾ و لھذا حرم تناول الحشرات، فإنھا مستخبثۃ طبعا، وإنما أبیح لنا أکل الطیبات 

ترجمہ: اور خبیث چیز نص کی بنا پر حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے (اور نبی لوگوں پر خبیث چیزوں کو حرام کرتےہیں) اور اسی وجہ سے حشرات کا کھانا حرام ہے، کیونکہ یہ طبعاًخبیث ہیں،جبکہ ہمارے لیے پاکیزہ چیزوں کو کھانا حلال کیا گیا ہے۔(مبسوط، کتاب الصید، ج 11، ص 220، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

جن حشرات میں بہنے والا خون نہیں ہوتا وہ پاک ہوتے ہیں۔فتاوی عا لمگیری میں ہے:

و موت مالیس لہ نفس سائلۃ فی الماء لاینجسہ کالبق والذباب و الزنابیر و العقاریب و نحوھا

ترجمہ: جس میں بہتا خون نہ ہواس کا پانی میں مرنا پانی کو ناپاک نہیں کرتا، جیسے مچھر، مکھی، بھڑ اور بچھو وغیرہا۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، الباب الثالث، الفصل الثانی، ج 01، ص 24، مطبوعہ کوئٹہ)

قرمز کیڑا جس سے رنگ حاصل کیا جاتا ہے، اس کے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

هذه الدودة إن لم يكن لها نفس سائلة تكون ميتتها طاهرة كالذباب والبعوض وإن لم يجز أكله 

یعنی: یہ کیڑا اگر ایسا ہے کہ اس میں بہنے والا خون نہیں ہے، تو یہ مرے ہونے کی حالت میں پاک ہی ہوگا، جیسے مکھی اور مچھر کا حکم ہے اگرچہ اس کا کھانا جائز نہیں۔(رد المحتار، جلد 5، صفحہ 51، دار الفکر، بیروت)

جس چیز کا حلق میں لے جانا ممنوع ہو، اس کا یوں استعمال کرنا کہ حلق میں جانے کا احتمال ہو یہ بھی مکروہ ہوتا ہے، جیسا کہ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ روزے کی حالت میں عورت اگر بلا ضرورت اپنے بچے کو کھانا چبا کر دے یا کوئی بھی روزے دارگوند وغیرہ چبائے تو یہ مکروہ ہے۔ چنانچہ ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر میں ہے:

و ما بین الھلالین من الھدایۃ ”(و يكره للمرأة أن تمضغ لصبيها الطعام إذا كان لها منه بد لما بينا) من أنه تعريض للصوم على الفساد إذ قد يسبق شيء منه إلى الحلق، فإن من حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه۔۔۔ (و مضغ العلك لا يفطر الصائم ۔۔۔ إلا أنه يكره للصائم)

یعنی: عورت کے لیے یہ مکروہ ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی اور متبادل موجود ہو تو وہ اپنے بچے کے لیے کھانےکی چیز چبائے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس میں روزے کے فاسد ہونے کا اندیشہ ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ کچھ حصہ حلق میں چلا جائے۔ (حدیث پاک کے مطابق) جو شخص ممنوعہ چیز کے قریب جائے، وہ اس میں پڑنے کا اندیشہ رکھتا ہے۔ اور گوند چبانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ یہ روزہ دار کے لئے مکروہ ہے۔(فتح القدير مع ہدایہ، جلد 2، صفحہ 345، دار الفکر، بیروت)

سوال: اگر اس کیڑے سے کلر نکالنے کے لئے الکحل کا استعمال کیا جاتا ہو، تو کیا اس کا خارجی استعمال پھر بھی درست رہے گا؟

جواب: جی ہاں اگر اس کلر کے حصول میں الکحل کا استعمال ہوتا ہو، تب بھی اس کا خارجی استعمال درست ہی رہے گا؛ کیونکہ فی زمانہ عموم بلوی کی وجہ سے الکحل والی خارجی استعمال کی اشیاءکی اجازت ہے۔ اس کی مزید تفصیل پڑھنا چاہیں تو دار الافتاء اہلسنت کا دوسرا فتوی ملاحظہ فرمائیں، جس کا ریفرنس نمبرUK64ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL-0189

تاریخ اجراء: 08 شعبان المعظم 1446ھ / 07 فروری 2025ء