
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک شخص نے چوری کی اور چوری کے مال سے کاروبار کیا اور اس سے نفع بھی حاصل کیا، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ چوری کے مال سے کاروبار کرنے کے سبب حاصل ہونے والا نفع حلال ہوگا یا وہ بھی حرام ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ایسا مالِ حرام جو بالکل ملکیت میں نہیں آتا، جیسے چوری، رشوت، غصب وغیرہ کے ذریعے حاصل کردہ مال، ایسے مال کو اصل مالک تک پہنچانا، فرض ہے، اگر وہ نہ رہا ہو، تو اس کے ورثا کو دینا ہوگا اور اگر کسی صورت نہ اصل مالک کی معلومات ہوسکے اورنہ اس کے ورثہ کی، تو اس مال کو بغیر ثواب کی نیّت کے شرعی فقیرکودینا ضروری ہے، ایسے مال کو کاروبار، خریدوفروخت وغیرہ کسی کام میں لگانا، حرام قطعی ہے، نیز اس قبیح عمل سے سچی توبہ کرنا ، بھی ضروری ہے۔
بہر حال اگر کسی نے چوری کے مال سے کاروبار کر کے نفع کما یا، تو نفع اپنے استعمال میں لانا حلال ہوگا یا نہیں؟ اس کی دو صورتیں ہے:
(1) اگر چوری کا مال کوئی ایسی چیز ہو کہ جو لین دین میں متعین ہو جاتی ہے، جیسے سامان (مثلاً موٹر سائیکل، کار وغیرہ) اور اس کو بیچ کر نفع حاصل کیا، تو ایسی صورت میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اس چیز کی اصل قیمت مالک یا ورثا کو لوٹانے یا صدقہ کرنے کے ساتھ نفع کو صدقہ کرنا بھی ضروری ہے، نفع اپنے استعمال میں لانا، جائز نہیں۔
(2) اور اگر چوری کا مال ایسی صورت میں تھا، جو لین دین میں متعین نہیں ہوتا، جیسے نقود (یعنی سونا، چاندی، کرنسی نوٹ وغیرہ) یا چوری کردہ مال تو متعین سامان کی صورت میں ہی تھا، لیکن اس کو بیچ کر رقم حاصل کر لی اور اس سے مزید خرید و فروخت اور کاروبار کر کے نفع کمایا، مثلاً مالِ حرام سے گروسری کا سامان خرید کر لایا اور کاروبار شروع کر دیا، تو اگر یہ سامان خریدتے وقت مالِ حرام پر عقد و نقد جمع نہ ہوئے ، تو خریدا گیا سامان حرام نہیں ہوگا اور مفتیٰ بہ اور مختار للفتویٰ قول کے مطابق اصل رقم مالک یا ورثا کو لوٹانے یا صدقہ کرنے کےبعد نفع کو صدقہ کرنا، لازم نہیں، بلکہ اپنے استعمال میں لانا بھی جائز ہے۔
مالِ حرام پر عقد و نقد جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سامان خریدتے ہوئے چوری کی رقم دکھا کر کہا کہ اس کے بدلے سامان دے دو اور ادائیگی کے وقت بھی وہی رقم دی یا چوری کی رقم تھما کر کہا: اس کے بدلے سامان دے دو۔ ایسی صورت میں خریدی گئی چیز بھی حرام ہوگی۔ اور اگر ان دونوں باتوں میں سے ایک نہ پائی جائے، مثلاً چوری کی رقم دکھائی اور ادائیگی دوسرے مال سے کر دی یا دکھائی کوئی اور رقم اور ادائیگی کے وقت چوری کی رقم دے دی یا کوئی معین رقم نہ دکھائی اورو ہی پہلے دی، بلکہ مطلقاً کہا کہ اتنے روپے کا یا اتنا سامان دے دو، پھر ادائیگی میں مالِ حرام دے دیا، ( ہمارے ہاں عموماً یہی طریقہ رائج ہے)، تو ایسی صورت میں مالِ حرام پر عقد و نقد جمع نہ ہونے کے سبب خریدی گئی چیز یا سامان حرام نہیں ہوگا اور اس مال سےکاروبار کرکے کمایا گیا نفع بھی حرام نہیں ہوگا۔
چوری وغیرہ حرام ذرائع سے مال حاصل کیا، تو مالک یا ورثا کو واپس لوٹانا یا صدقہ کرنا ضروری ہے، چنانچہ الاختیار، رد المحتار، فتاویٰ عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،
و اللفظ للآخر: و السبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله
ترجمہ: حرام ذرائع سے (حاصل کردہ مال) چھٹکارے کی صورت یہی ہے کہ اس کو واپس کر دیا جائے اور یہاں (مذکورہ صورتوں میں) یہی حل ہے کہ اگر مال کے مالک کا علم ہو کہ اس کو لوٹا سکتا ہے، تو اس کو واپس کر ے اور اگر اس کی معلومات نہ ہو، تو (اس کی طرف سے) صدقہ کر دے، تاکہ اسے اس مال کا نفع پہنچ جائے، اگرچہ اصل مال نہیں پہنچ سکتا۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الکراھیۃ، جلد 5، صفحہ 349، مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”جو مال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں، بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے،
و ذٰلک لان الحرمۃ فی الرشوۃ وامثالھا لعدم الملک اصلا فھو عندہ کالمغصوب فیجب الرد علی المالک او ورثتہ ما امکن اما فی الربٰو اواشباھہ فلفساد الملک وخبثہ و اذا قدملکہ بالقبض ملکاخبیثا لم یبق مملوک الماخوذ منہ لاستحالۃ اجتماع ملکین علی شیئ واحد فلم یجب الرد وانما وجب الانخلاع عنہ اما بالرد واما بالتصدق کما ھو سبیل سائر الاملاک الخبیثۃ
یعنی:یہ اس لئے کہ رشوت اور اس جیسے مال میں ملکیت بالکل نہ ہونے کی وجہ سے حرمت ہے لہٰذا وہ مال رشوت لینے والے کے پاس غصب شدہ مال کی طرح ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو وہ مال اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے، اور جہاں تک سُود یا اس جیسی اشیاء کا معاملہ ہے اس میں حرمت فسادِ مِلک اور خباثت کی بناء پر ہے اور جب ملک خبیث پر قبضہ کرنے کی وجہ سے وہ مالک ہو گیا تو جس سےمال لیاگیا اب اس کی ملکیت باقی نہ رہی، اس لئے کہ ایک چیز پر بیک وقت دو مِلک جمع ہونے محال ہیں لہٰذا مال ماخوذ کا واپس کرنا ضروری نہیں بلکہ اس سے علیحدگی واجب ہے خواہ اسی کو واپس لوٹا یا جائے یا صدقہ کر دیا جائے جس طرح دیگر املاک خبیثہ کا حکم ہوتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 551 تا 552، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
چوری کے مال کا حکم مغصوبہ مال والا ہے، چنانچہ امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ "جدالممتار" میں لکھتے ہیں:
حکم المسروق کالمغصوب، لان الخبث لعدم الملک
ترجمہ: چوری کے مال کا حکم مغصوبہ مال والا ہی ہے کہ دونوں میں خبث کی وجہ ملکیت کا نہ پایا جانا ہے۔ (جدالممتار، کتا ب الغصب، جلد 6، صفحہ 351، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
اور مغصوبہ مال سے کاروبار کر کے نفع کمانے کے متعلق تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
(لو تصرف في المغصوب الوديعة) بأن باعه (وربح) فيه (إذا كان) ذلك (متعينا بالاشارة أو بالشراء بدراهم الوديعة أو الغصب ونقدها) يعني يتصدق بربح حصل فيهما إذا كانا مما يتعين بالاشارة وإن كانا مما لا يتعين فعلى أربعة أوجه فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (و إن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) و نقدها (أو أطلق) و لم يشر (و نقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل (وبه يفتى) و المختار أنه لا يحل مطلقا كذا في الملتقى و لو بعد الضمان هو الصحيح كما في فتاوى النوازل و اختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام وهذا كله على قولهما. و عند أبي يوسف لا يتصدق بشيء منه
ترجمہ: اگر غاصب نے مغصوبہ چیز اور ودیعت میں تصرف کیا، یوں کہ اس کو بیچ کر نفع حاصل کر لیا، تو اگر وہ مغصوبہ چیز اشارے کے ساتھ متعین ہو یا غصب و ودیعت کے دراہم کے بدلے خریدنے اور انہی دراہم کو اداکرنے کے ذریعے متعین ہو، تو ان دونوں صورتوں میں حاصل کردہ نفع صدقہ کرنا ہوگا ، جب کہ وہ چیز بھی ایسی ہو کہ جو اشارے کے ساتھ متعین ہو جاتی ہو اور اگر ایسی چیز نہ ہو (مثلاً نقدی ہو، تو) اس کی چار صورتیں ہوں گی: (1) مغصوبہ دراہم کی طرف اشارہ کیا اور وہی ادا کیے، تو بھی نفع صدقہ کرنا ہوگا۔ (2) اور اگر اشارہ مغصوبہ دراہم کی طرف کیا اور ادا دوسرے کیے (3) یا اشارہ دوسرے دراہم کی طرف کیا اور ادا مغصوبہ دراہم کیے (4) یا دراہم کو مطلق رکھا، ان کی طرف اشارہ نہیں کیا اور ادائیگی کے وقت مغصوبہ دراہم ادا کر دئیے، تو آخری تینوں صورتوں میں امامِ کرخی علیہ الرحمۃ کے نزدیک صدقہ کرنا ضروری نہیں اور ایک قول کے مطابق یہی مفتیٰ بہ ہے اور مختار یہ ہے کہ بہر صورت نفع حلال نہیں ہوگا، یونہی ملتقیٰ میں ہے، اگرچہ ضمان ادا کر دیا ہو، یہی صحیح ہے، جیساکہ فتاویٰ نوازل میں ہے اور بعض فقہائے کرام نے ہمارے زمانے میں حرام میں ابتلا کے عام ہو جانے کی وجہ سے امامِ کرخی علیہ الرحمۃ کے قول کو مختار للفتویٰ قرار دیا ہے۔ اور یہ ساری بحث طرفین علیہما الرحمۃ کے قول کی بنا پر ہے، امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک نفع کو صدقہ کرنا ، کسی صورت ضروری نہیں۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے:
و في البزازية وقول الكرخي عليه الفتوى... (قوله قيل وبه يفتى) قاله في الذخيرة وغيرها كما في القهستاني، و مشى عليه في الغرر ومختصر الوقاية والاصلاح، و نقله في اليعقوبية عن المحيط، ومع هذا لم يرتضه الشارح فأتى بقيل لما في الهداية
ترجمہ: بزازیہ میں ہے کہ امام کرخی علیہ الرحمۃ کے قول پر ہی فتویٰ ہے اور شارح کی عبارت "قیل (و بہ یفتی)"یعنی ایک قول کے مطابق یہی قول قابل فتوٰی ہے" ذخیرہ وغیرہ میں بھی اسی کو قابلِ فتویٰ فرمایا، جیسا کہ جامع الرموز (قہستانی) میں مذکور ہے، غرر، مختصر، وقایہ اور اصلاح میں بھی اسی کو اختیار فرمایا اور یعقوبیہ میں محیط سے یہی منقول ہے، اس کے باوجود شارح علیہ الرحمۃ نے اس قول کو اختیار نہیں فرمایا اور اس کو قیل کے ذریعے بیان کیا، صرف اس وجہ سے کہ ہدایہ میں اس طرح بیان ہوا ہے۔ (تنویر الابصار و درالمختار مع ردالمحتار، كتاب الغصب، جلد 9، صفحہ 317، 318، مطبوعہ کوئٹہ)
مذكوره بالا عبارت كے تحت امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ "جدالممتار " میں لکھتے ہیں:
و ھذا یقتضی انّ ربح النقد المؤدی ضمانہ یطیب مطلقاً من دون التفصیل ، لانّہ لا یتعلق العقد بعینہ فلا یتمکن الخبث و ھذا وارد علی قول الکرخی ایضاً... ثم اقول: بل فرق بین ما ھنا وما ثمہ ، اذ المال ثمہ واجب الرد بحکم التفاسخ الواجب لحق الشرع بخلاف ما ھنا، اذ لا ردّ بعد اداء الضمان، فما ھنا بالجواز اولیٰ
ترجمہ: اور یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ ضمان ادا کرنے کے بعد نقود کا نفع مطلقاً حلال ہوگا، اس لیے کہ عقد، بعینہ مالِ حرام سے متعلق نہیں ہوتا، تو خبث بھی سرایت نہیں کرے گا اور یہ امامِ کرخی علیہ الرحمۃ کے قول کے مطابق بھی ہے۔ پھر میں کہتا ہوں: ہماری اس بحث اور اس (عقدِ فاسد کی) بحث میں فرق ہے، کیونکہ عقدِ فاسد کی صورت میں عقد کو فسخ کرنے کا حکم ہونے کی بنا پر مال کا لوٹانا واجب ہے کہ یہی شرعی تقاضا ہے، برخلاف اِس مقام کے، کیونکہ یہاں ضمان ادا کرنے کے بعد نفع لوٹانے کا حکم نہیں ہے، تو پھر یہاں نفع بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ (جدالممتار، کتاب الغصب، جلد 6، صفحہ 352، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
یہی حکم و تفصیل فتاوی عالمگیری میں ہے:
إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة و هو الربح فإنه لا يطيب له و لا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره و نقد منه و في كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه و بعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال و هو المختار و الجواب في الجامعين و المضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام
ترجمہ: مفہوم اوپر گزر چکا۔ (فتاویٰ عالمگیری، كتاب الغصب، جلد 5، صفحہ 141، مطبوعہ کوئٹہ)
مفتیٰ بہ اور مختار للفتویٰ قول کو بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ "فتاویٰ رضویہ" میں لکھتے ہیں: ”وہ روپیہ کہ راجہ سے مسجد کےلئے مانگ کرلیا اور اس نے بخوشی دیا اسے زبردستی زیر حرمت مان لینا کیا معنی۔ رابعاً بالفرض یہ روپیہ حرام ہی ہوتا، تو امام کرخی کے مذہب مفتی بہ پر مسجد کی طرف اس کی خباثت سرایت نہ کرسکتی، جب تک اس پر عقد ونقد جمع نہ ہوتے یعنی وہ روپیہ دکھاکر بائعوں سے اینٹ کڑیاں زمین وغیرہا خریدی جاتیں کہ اس روپے کے عوض میں دے پھر وہی زرحرام ثمن میں ادا کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ عام خریداریاں اس طور پر نہیں ہوتیں تو اب بھی ان مسجدوں میں اثر حرام ماننا جزاف و باطل تھا۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 16، صفحہ 514، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ”وہ چٹائیاں کہ اس روپیہ سے خرید کر مسجد میں دیں ان پر اگر عقد ونقد جمع نہ ہوئے تھے تو مسجد میں ان کا لینا اور استعمال کرنا اور ان پر نماز پڑھنا سب درست ہے اس میں کچھ حرج نہیں عقد ونقد جمع ہونے کے یہ معنی کہ وہی خبیث روپیہ بائع کو دکھا کر کہا ہو کہ اس روپے کے بدلے چٹائیاں دے دے، یہ اس روپیہ پر عقد ہوا پھر وہی روپیہ ثمن میں دے دیا گیا ہو یہ اس روپے کا نقد ہوا، ظاہر کہ یہاں خرید وفروخت میں ایسا بہت نادر ہے غالبا چیز مانگتے ہیں کہ ایک روپیہ کے یہ دے دو پھر زر ثمن ادا کرتے ہیں یہ اگر اس مال خبیث سے ہوا ہو تو اس کا صرف نقد ہوا اس پر عقد نہ ہوا اور اس صورت میں ان چٹائیوں میں کوئی خباثت نہ آئی اور مسجد پر ان کا وقف صحیح ہوگیا اور وہ دینے والے کو واپس نہیں دی جاسکتیں جب تک مسجد میں قابل استعمال ہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صفحہ، 332، 333، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: ”مغصوب یا ودِیعت اگر معین چیز ہو اسے بیچ کر نفع حاصل کیا تو اس نفع کو صدقہ کر دینا واجب ہے، مثلاًایک چیز کی قیمت سو روپے تھی اور غاصب نے اسے سوا سومیں بیچا سو روپے تاوان کے دینے ہوں گے اور پچیس روپے کو صدقہ کر دینا ہوگا اور اگر وہ چیز غیر متعین یعنی از قبیل نقود ہو، تو اس میں چار صورتیں ہیں۔ (۱) عقد و نقد دونوں اسی حرام مال پر مجتمع ہوں مثلاً یوں کہا کہ اس روپیہ کی فلاں چیز دو پھر وہی روپیہ اسے دے دیا تو یہ چیز جو خریدی ہے یہ بھی حرام ہے یا بائع کو پہلے سے وہ حرام روپیہ دے دیا تھا پھر اس سے چیز خریدی یہ چیز حرام ہے۔ (۲) عقد ہو نقد نہ ہو یعنی حرام روپیہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کی فلاں چیز دو مگر بائع کو یہ روپیہ نہیں دیا بلکہ دوسرا دیا۔ (۳) عقد نہ ہو نقد ہو بائع سے حرام کی طرف اشارہ کر کے نہیں کہا کہ اس روپیہ کی چیز دو بلکہ مطلقاً کہا کہ ایک روپیہ کی چیز دو مگر ثمن میں یہی حرام روپیہ دیا۔ (۴) حلال روپیہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کی چیز دو مگر ثمن میں حرام روپیہ ادا کیا ان تین صورتوں میں تصدق واجب نہیں ہے اور بعض فقہا ان صورتوں میں بھی تصدق کو واجب کہتے ہیں اور یہ قول بھی باقوت ہے، مگر زمانہ کی حالت دیکھتے ہوئے کہ حرام سے بچنا بہت دشوار ہوگیا، قول اول پر بعض علماء نے فتویٰ دیا ہے“۔ (بھارِ شریعت، حصہ 15، صفحہ 215، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9278
تاریخ اجراء: 23 شعبان المعظم 1446ھ/ 22 فروری 2025ء