دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں، کمپنی میں یہ پالیسی ہے کہ ہر تین ماہ بعد، وہ سامان، جو سیلرز کسی وجہ سے واپس کر دیتے ہیں یا نہیں لیتے، تو کمپنی ہمیں حکم دیتی ہے کہ وہ سامان کچرے میں پھینک دیا جائے، بعض اوقات ان اشیا میں قیمتی چیزیں بھی ہوتی ہیں، ہم اپنے مینجر کی اجازت سے وہ سامان کچرے میں ڈالنے کے بجائے ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیتے ہیں، تو کیا مینجر کی اجازت کے ساتھ وہ چیزیں اپنے استعمال میں لانا شرعاً جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب مالک یا اس کا مجاز نمائندہ اس سامان کو پھینکنے کا کہہ دے، اب ملازم اس کو پھینکنے کے بجائے خود استعمال کر لے تو اس کے استعمال کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ ہاں! اگر وہ سامان صحیح سلامت ہو لیکن ملازم اسے عیب دار ظاہر کر کے دھوکے سے پھینکوانے اور اپنے لئے استعمال کرنے کا حیلہ کریں، تو یہ شرعاً ناجائز و حرام ہے۔
چنانچہ بہار شریعت میں ہے ”خریف (خزاں)کے موسم میں درختوں کے پتے گرجاتے ہیں، اگر وہ پتے کام کے ہوں تو اٹھا لانا، ناجائز ہے اور مالک کے لیے بیکار ہوں جیسا کہ ہمارے ملک میں باغات میں پتے گرجاتے ہیں اور مالک ان کو کام میں نہیں لاتا، بھاڑ (بھٹی/ تنور) جلانے والے اٹھا لاتے ہیں ایسے پتوں کو اٹھا لانے میں حرج نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ381، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”غَدَر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ139، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب : مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتوی نمبر : WAT-4461
تاریخ اجراء : 29جمادی الاولی1447 ھ/21نومبر2025 ء