
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گدھی کے دودھ سے بنا ہوا فیس ماسک یا نائٹ کریم استعمال کرنا کیسا ہے؟نیز اسے بیچنے کا کیا حکم ہوگا ؟برائے مہربانی ارشادفرمادیں۔
تفصیل:گدھی کے دودھ کو مخصوص طریقے سے گرم کیا جاتا ہے، پھر اس میں ناریل یا زیتون کا تیل، شہداور وٹامن E کیپسول شامل کرکے ایک خاص کریم تیار کی جاتی ہے، جو کہ جلد کے رنگ کو صاف کرنے، جھریاں و داغ دھبے دور کرنے، کیل مہاسوں کے علاج اور جِلدی انفیکشن میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
گدھی کے دودھ سے بنا یا ہوا فیس ماسک یا نائٹ کریم استعمال کرنا جائز ہے ،یونہی اس ماسک یا کریم کو بیچنا بھی جائز ہے۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ گدھی کا دودھ صحیح قول کے مطابق پاک ہے،اور جب وہ پاک ہے تو اس کا بیرونی استعمال (جیسے اس سے بنی ہوئی کریم یا ماسک کو چہرے پر لگاناوغیرہ) شرعاً جائز ہے، اس کی نظیر افیون ہے جس کے پاک ہونے کی وجہ سے فقہائے کرام علیہم الرحمۃ نے اس کے بیرونی استعمال کی اجازت دی ہے،یونہی اس کریم یا ماسک کو بیچنا بھی جائز ہے ،کیونکہ کریم و ماسک کا استعمال بیرونی ہی ہوتا ہے کوئی اسے اندرونی استعمال میں نہیں لاتا ،لہٰذا اس کو بیچنے کی صورت میں گناہ پر مدد کرنے کا کوئی پہلو موجود نہیں ۔
گدھی کا دودھ پینا اگرچہ جائز نہیں ،لیکن یہ فی نفسہٖ پاک ہے ،چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
والصحيح أن لبن الأتان طاهر. كذا في التبيين وهكذا في منية المصلي وهو الأصح.كذا في الهداية ولا يؤكل.كذا في النهاية و الخلاصة
ترجمہ: اور صحیح قول کے مطابق گدھی کا دودھ پاک ہے ایسا ہی تبیین میں ہے اور اسی طرح منیۃ المصلی میں ہے کہ یہی اصح قول ہے ،اسی طرح ہدایہ میں ہے اور اس كو كھانا پینا جائز نہیں ،ایسا ہی نہایہ و خلاصہ میں ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج 01، ص 46،دار الفکر ،بیروت)
منحۃ السلوک میں ہے :
وأما لبن الحمار: فقد نص أنه طاهر، وفي شرح الجامع الصغير لفخر الاسلام: أن لبن الأتان طاهر ولا يؤكل
ترجمہ: اور گدھی کے دودھ کے متعلق صراحت کی گئی ہے کہ یہ پاک ہے اور امام فخر الاسلام کی شرح جامع صغیر میں ہے کہ گدھی کا دودھ پاک تو ہے لیکن کھانا پینا جائز نہیں ۔ (منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک ،ج01،ص 51، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - قطر)
لہٰذااس کا جسم پر بیرونی استعمال کرنا جائز ہے ،چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’شراب حرام بھی ہے اورنجس بھی،اس کاخارج بدن پربھی لگانا،جائزنہیں اورافیون حرام ہے،نجس نہیں،خارج بدن پر اس کااستعمال جائزہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج24،ص198، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :” افیون نشہ کی حدتک کھانا حرام ہے اور اسے بیرونی علاج ،مثلاً ضمادوطلاء میں استعمال کرنا یاخوردنی معجونوں میں اتنا قلیل حصہ داخل کرنا کہ روز کی قدر شربت نشے کی حدتک نہ پہنچے ،توجائزہے“ (فتاوٰی رضویہ ،ج 23،ص 574، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے :”جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ذبح شرعی سے اون کا گوشت اور چربی اور چمڑا پاک ہو جاتا ہے،مگر خنزیر کہ اس کا ہر جز نجس ہے اور آدمی اگرچہ طاہر ہے اس کا استعمال ناجائز ہے۔ان جانوروں کی چربی وغیرہ کو اگر کھانے کے سوا خارجی طور پر استعمال کرنا چاہیں تو ذبح کر لیں کہ اس صورت میں اوس کے استعمال سے بدن یا کپڑا نجس نہیں ہوگا ۔“ (بہار شریعت ،ج 03، ص 327، مکتبۃ المدینہ)
یوہیں اس دودھ سے بنی ہوئی کریم و ماسک کو بیچنا بھی جائز ہے ،کیونکہ معصیت اس کے عین کے ساتھ قائم نہیں اور مشتری کا مقصود بھی بیرونی استعمال ہی ہوتا ہے جوکہ ایک جائز امر ہے ،لہٰذا اس میں گناہ پر مدد کا پہلو نہیں ،فتاوٰی رضویہ میں ہے :”اور جب وہ(افیون) معصیت کے لئے متعین نہیں،تو اس کے بیچنے میں حرج نہیں،مگر اس کے ہاتھ جس کی نسبت معلوم ہوکہ نشہ کی غرض سے کھانے یاپینے کولیتاہے،
لان المعصیۃ تقوم بعینھا فکان کبیع السلاح من أھل الفتنۃ
یعنی:اس لئے کہ گناہ عین شے کے ساتھ قائم ہوجائے گا تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے اہل فتنہ کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنا۔“ (فتاوٰی رضویہ ،ج23 ،ص574، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0616
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1447ھ/29جولائی 2025ء