دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ شادی کے موقع پر دولہے کو بازو پر جو گانے باندھے جاتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے، یہ گانے کچھ دھاگوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں، تو کچھ بازار سے خریدے جاتے ہیں۔؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عند الشرع دولہے کے بازو پر گانہ باندھنا جائز ہے، جبکہ اس کی وجہ سے کسی حرام و گناہ کا ارتکاب لازم نہ آئے مثلا گانہ باندھنے والی غیر محرمہ عورت نہ ہو، مرد کے لیے ممنوع دھاتوں پر مشتمل نہ ہو، کسی فاسد نظریے کی بنیاد پر نہ ہو، کیونکہ جن رسوم کے بارے شریعت میں ممانعت نہیں وہ ناجائز نہیں، کہ فقہ کا یہ قاعدہ ہے
الاصل فی الاشیاء الاباحۃ
ترجمہ: چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں۔ (الاشباہ و النظائر، صفحہ 56، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”شادیوں میں طرح طرح کی رسمیں برتی جاتی ہيں، ہر ملک میں نئی رسوم ہر قوم و خاندان کے رواج اور طریقے جداگانہ جو رسمیں ہمارے ملک میں جاری ہیں ان میں بعض کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رسوم کی بنا عرف پر ہے یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ شرعاً واجب یا سنت یا مستحب ہیں لہٰذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اُس وقت تک اُسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے کھینچ تان کر ممنوع قرار دینا زیادتی ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو۔“(بہار شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 104، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4492
تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 01 دسمبر 2025ء