
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-538
تاریخ اجراء:06ربیع الاول1446ھ/11ستمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ٹیچرز ڈے(Teacher’s Day) کے موقع پر کیا فی میل (Female)اسٹوڈینٹ، اپنے میل (Male)ٹیچر کو تحفہ دے سکتی ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کوئی بھی اجنبی عورت، کسی بھی اجنبی مرد کو تحفہ نہیں دے سکتی، کیونکہ تحفہ تعلقات کو بڑھاتا، دل مائل کرتا، محبت پید ا کرتا ہے، اور دو اجنبی مرد وعورت کے درمیان محبت کا پیدا ہونا، ایک دوسرے کی طرف دل مائل ہونا، معاذ اللہ عزوجل ناجائز تعلقات اوربہت سے فتنوں کو جنم دیتا ہے، یہی وجہ تھی کہ شریعت مطہرہ نے اجنبی عورت کے، اجنبی مرد سے بے تکلفانہ اور نرم و نازک لہجے میں بات چیت کرنے کو بھی جائز نہیں رکھا، لہذا اسی بنا پر ایک اجنبی عورت کا، اجنبی مردٹیچر کو تحفہ دینا بھی شرعاًممنوع ہے، اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
عورتوں کواجنبی مرد وں سے نرم و نازک لہجے میں بات چیت کرنا بھی منع ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ترجمہ کنزُالعِرفان: ’’اے نبی کی بیویو!تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو۔اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو تو بات کرنے میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا مریض آدمی کچھ لالچ کرے اورتم اچھی بات کہو۔‘‘(القرآن، پارہ 22،سورۃ الاحزاب:32)
مذکورہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”آیت کے اس حصے میں ازواجِ مُطَہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو ایک ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی اوررسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی مخالفت کرنے سے ڈرتی ہو، تو جب کسی ضرورت کی بنا پر غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑ جائے، تواس وقت ایسا انداز اختیار کرو جس سے لہجہ میں نز اکت نہ آنے پائے اور بات میں نرمی نہ ہو، بلکہ انتہائی سادگی سے بات کی جائے اور اگر دین و اسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور وعظ و نصیحت کی بات کرنے کی ضرورت پیش آئے ،تو بھی نرم اور نازک لہجے میں نہ ہو۔ علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن امت کی مائیں ہیں اور کوئی شخص اپنی ماں کے بارے میں بُری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصور تک نہیں کر سکتا، اس کے باوجود ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا تاکہ جو لوگ منافق ہیں، وہ کوئی لالچ نہ کر سکیں، کیونکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا جس کی بنا پر ان کی طرف سے کسی برے لالچ کا اندیشہ تھا، اس لئے نرم لہجہ اپنانے سے منع کر کے یہ ذریعہ ہی بند کردیا گیا۔“اس سے واضح ہوا کہ جب ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لیےیہ حکم ہے، تو بقیہ کے لیے یہ حکم کس قدر زیادہ ہوگا کہ دوسروں کے لیے تو فتنوں کے مَواقع اور زیادہ ہیں۔‘‘(تفسیر صراط الجنان، جلد8، صفحہ16،17، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں: ”ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالةالرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ“ ترجمہ: ہم عورتوں کے لیے اپنی آوازیں بلند کرنے، اُسےمخصوص میلان والے لہجے میں لمبا کرنے، اس میں نرم لہجہ اختیار کرنے اور اس میں طرز بنانے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ ان سب باتوں میں مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور ان کی شہوات کو ابھارنا ہے، اسی وجہ سے یہ جائز نہیں کہ عورت اذان دے۔(رد المحتارعلی الدر المختار، جلد2، مطلب فی ستر العورۃ،صفحہ97،مطبوعہ کوئٹہ)
امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ’’ پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ نامی کتاب میں عورت کے نامحرم رشتے دار کو تحفہ دینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ’’(عورت نامحرم کو تحفہ) نہیں بھجوا سکتی۔ تحفے کی تاثیر عجیب ہو تی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ ’’تحفہ حکیم (یعنی عقلمند و دانا) کواندھا کر دیتا ہے۔ ایک اور حدیثِ مبارَک میں ہے: ’’تحفہ دو محبت بڑھے گی۔‘‘ بہرحال عورت کو اپنے نامحرم رشتے دار کے دل میں محبت کی جڑیں اُستَوار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘(پردے کے بارے میں سوال جواب، صفحہ330، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم