
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
جو انسان مرچکا ہو، کیا اس کی زندگی کی تصاویر کو دیوار پر لگانا جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بلاعذرِ شرعی جاندار کی تصویر بنانا یا بنوانا ، ناجائز وحرام ہے ؛ اسی طرح بطورِ تعظیم تصاویر گھر میں رکھنا بھی ناجائز وحرام ہے اور دیوار پر لگانا بھی تعظیم ہی کی صورت ہے لہٰذا پوچھی گئی صورت میں دیوار پر اس فوت شدہ کی زندگی کی تصاویر لگانے کی اجازت نہیں کہ وہ تصویر اس کی زندگی کی حکایت کرے گی یعنی اس تصویر سے وہ کسی مردے کی تصویر نہیں لگے گی کیونکہ وہ زندگی میں بنائی گئی نارمل حالت کی تصویر ہے اور بلا ضرورت ایسی تصویرکا پرنٹ نہ زندگی میں نکالنا جائز ہے اور نہ ہی انتقال کے بعد، اور اسے دیوارپرلگانابھی جائزنہیں ہے۔
حدیث شریف ہے
ان الملائکۃ لاتدخل بیتا فیہ صورۃ
ترجمہ: جس گھر میں تصویر ہو، اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (صحیح البخاری، جلد 4، صفحہ 139، حدیث: 3351، مطبوعہ مصر)
گھروں میں تصاویر لٹکانے کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے
و لا یجوز ان یعلق فی موضع شیئا فیہ صورۃ ذات روح
ترجمہ: کسی بھی جگہ ایسی چیز لٹکانا ، جائز نہیں ہے ، جس میں جاندار کی تصویر ہو۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، جلد 5، صفحہ 359، مطبوعہ بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ذی روح کی تصویر بنانا، بنوانا، اعزازاً اپنے پاس رکھنا سب حرام فرمایا ہے اوراس پر سخت سخت وعیدیں ارشاد کیں اور ان کے دور کرنے، مٹانے کا حکم دیا۔ احادیث اس بارے میں حدِ تواترپر ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 426، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
تصاویر کا حکم بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”فقط فرق حکایت و فہم ناظرکا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے، تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایتِ حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے، تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔۔۔ اور شک نہیں کہ عکسی تصویریں اگرچہ نیم قد یا سینہ تک بلکہ صرف چہرہ کی ہوں ہرگز نہ مثلِ شجر ہوتی ہیں، نہ مردہ، ذو الصورۃ کی حکایت کرتی ہیں، بلکہ یقیناً جیتے جاگتے کی صورت دکھاتی ہیں اور ناظرین کا ذہن ان سے حالتِ حیات ذوالصورۃ ہی کی طرف جاتا ہے، کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ مردہ کی صورت ہے اور مدارِ حکم اسی فہم پر تھا، نہ حیات و موتِ حقیقی پر جس سے تصویر کو بہرہ نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 587، 588، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4208
تاریخ اجراء: 18ربیع الاول1447ھ / 12ستمبر2025ء