
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3395
تاریخ اجراء: 24جمادی الاخریٰ 1446ھ/27دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا ہم گھر کی دیواروں پر اپنے بچوں کی تصاویر لگاسکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
واضح رہے کہ بلا عذر شرعی جاندار کی تصاویر بنانا یا بنوانا دونوں کام ناجائز و حرام ہیں جبکہ تصویر میں چہرہ واضح طور پر نظرآرہا ہو، یونہی انہیں بطور تعظیم گھر میں رکھنا ،دیواروں پر لٹکاناناجائزو حرام ہے ،لہذاآپ گھر کی دیواروں پر اپنے بچوں کی تصاویر ہر گز نہیں لگاسکتے جبکہ ان میں بچوں کا چہرہ واضح ہو اگرچہ وہ پورے قد کی نہ ہوں ۔ نیز ایسی تصاویر جس گھر میں ہوں اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔
گھر میں تصویر ہو تو اس کے متعلق حدیث شریف میں ہے” أن الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة“ترجمہ: جس گھر میں تصویر ہو ، اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث 3224،ج 4،ص 114،دار طوق النجاۃ)
گھروں میں تصاویر لٹکانے کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے” ولا یجوز ان یعلق فی موضع شیئا فیہ صورۃ ذات روح “ترجمہ : کسی بھی جگہ ایسی چیز لٹکانا ، جائز نہیں ہے ، جس میں کسی جاندار کی تصویر ہو ۔(فتاوی ھندیۃ،ج 5،ص 359،دار الفکر،بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے”شک نہیں کہ عکسی تصویریں اگرچہ نیم قد یا سینہ تک بلکہ صرف چہرہ کی ہوں ہرگز نہ مثلِ شجر ہوتی ہیں ، نہ مردہ ، ذوالصورۃ کی حکایت کرتی ہیں، بلکہ یقیناً جیتے جاگتے کی صورت دکھاتی ہیں اور ناظرین کا ذہن ان سے حالتِ حیات ذوالصورۃ ہی کی طرف جاتا ہے ، کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ مردہ کی صورت ہے اور مدارِ حکم اسی فہم پر تھا ، نہ حیات و موتِ حقیقی پر جس سے تصویر کو بہرہ نہیں۔ “(فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 588، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم