دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دل بہلانے کے لیے گھر میں مور اور طوطا پالنا کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں گھر میں رکھنے سے لڑائی جھگڑے اور تنگدستی پیدا ہوتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دل بہلانے کے لیے گھر میں پرندے، مثلاً مور اور طوطا وغیرہ رکھنا اور پالنا شرعاًجائز ہے، بشرطیکہ ان کی خوراک اور ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے اور انہیں آپس میں لڑوانے وغیرہ دیگر ممنوعاتِ شرعیہ کا ارتکاب نہ کیا جائے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مذکورہ پرندے گھر میں رکھنے سے لڑائی جھگڑے اور تنگدستی پیدا ہوتی ہے، تو اس کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں، یہ محض بدشگونی لینا ہے اور بد شگونی اسلام میں ممنوع ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب تشریف لاتے، تو فرماتے: ”يا ابا عمير ما فعل النغير؟ “ترجمہ: اے ابو عمیر! نغیر(پرندے) کا کیا ہوا؟ (الصحیح البخاری، جلد8، صفحہ 48، مطبوعہ دار طوق النجاة، بيروت)
مذکورہ حدیث سے متعلق شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 852ھ/1449ء) لکھتے ہیں:
”جواز امساك الطير في القفص ونحوه“
یعنی اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں رکھنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، جلد 10، صفحہ 584، دار المعرفۃ ، بیروت )
علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:”اما للاستئناس فمباح“ ترجمہ: دل بہلانے کے لیے پرندے پالنا مباح ہے۔
مذکورہ عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:
” قال في المجتبى رامزا: لا باس بحبس الطيور والدجاج في بيته ولكن يعلفها“
ترجمہ: صاحبِ مجتبی نے "مجتبی" میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پرندوں اور مرغیوں کو گھر میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ان کے دانہ پانی کا خیال رکھے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، جلد09، صفحہ662، مطبوعہ کوئٹہ)
پرندے پالنے کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”لڑانا مطلقاً ناجائزوگناہ ہے کہ بے سبب ایذائے بے گناہ ہے۔۔۔ اور جانورانِ خانگی(گھریلو جانور) مثلِ خروس(گھریلو مرغ) و ماکیان(گھریلو مرغی) و کبوتر اہلی وغیرہا کا پالنا بلاشبہ جائزہے، جبکہ انہیں ایذاسے بچائے اور آب ودانہ کی کافی خبر گیری رکھے۔۔۔رہا جانورانِ وحشی کاپالنا، جیسے طوطی، مینا، لال، بلبل وغیرہا۔۔۔نصِ صریح حدیث صحیح واقوالِ ائمہ نقد و تنقیح سے صاف جواب و اباحت مستفاد ہے، جبکہ خبر گیری مذکور بروجہ کافی بجالائے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ643 تا 645، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
کسی چیز کی وجہ سے لڑائی جھگڑے یا بے برکتی پیدا ہونے کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں، چنانچہ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
”وسئل ما يكون السؤال عن النحس والسعد وعن الايام والليالي التي تصلح لنحو السفر والانتقال ما يكون جوابه؟(اجاب) من يسال عن النحس وما بعده لا يجاب الا بالاعراض عنه وتسفيه ما فعله ويبين له قبحه وان ذلك من سنة اليهود لا من هدى المسلمين المتوكلين على خالقهم“
ترجمہ: حضرت علامہ آفندی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ سے منحوس و مبارک اور دنوں اور راتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ سفر و دیگر کاموں کے لیے منحوس یا بابرکت ہوتے ہیں؟ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواب دیا: جو شخص کسی چیز کے منحوس ہونے کے بارے میں سوال کرے، تو اسے جواب نہ دیا جائے، بلکہ اس سے اعراض کیا جائے اور اس کے فعل کوجہالت کہا جائے اور اس کی برائی کو بیان کیا جائے کیونکہ یہ (کسی چیز کو اپنے حق میں منحوس سمجھنا) یہودیوں کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا طریقہ نہیں جو اپنے خالق عزوجل پر توکل رکھتے ہیں۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، جلد2، صفحہ333، مطبوعہ دار المعرفة، بیروت)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ ”یہاں عام طور سے تمام شہر متفق ہے کہ درخت پپیتہ جس کوارنڈ خرپزہ کہتے ہیں، مکان مسکونہ(یعنی رہائشی مکان) میں لگانا منحوس ہے اور منع ہے، چونکہ یہاں یہ بکثرت اور نہایت لذیذ ہیں، لہٰذا التماس ہے کہ اس بارے میں احکام شرعی سے خبردار کیجئے؟ تو جواباً ارشاد فرمایا: شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، شرع نے نہ اسے منحوس ٹھہرایا، نہ مبارک۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد23، صفحہ 267-266، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
گھر، گھوڑا وغیرہ کو منحوس جاننے والے کے متعلق مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ /1971ء)لکھتےہیں: ”بہرحال یہاں شوم سے مراد بدفال نہیں کہ اس کی وجہ سے رزق گھٹ جائے یا آدمی مرجائے کہ اسلام میں بدفالی ممنوع ہے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ06، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9618
تاریخ اجراء: 21جمادلی الاولیٰ 1447ھ/13 نومبر 2025 ء