
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-486
تاریخ اجراء:18 محرم الحرام6144ھ/25 جولائی2024
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا کوئی عورت شوہر کےا سپرم سے بچہ پیدا کر سکتی ہے؟آج کل کے ڈاکٹر شوہر کےا سپرم لے کر بیوی کے رحم میں منتقل کر دیتے ہیں جس سے بچے کی پیدائش ممکن ہوتی ہے۔شریعت کی رُو سے ایسا کرنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فی زمانہ اولاد حاصل کرنے کے لیےایک طریقہ مرد کے اسپرم کو عورت کے رحم میں منتقل کرنا بھی ہے، اس جدید طریقے میں مرد کے جرثوموں(Sperms) کوایک خصوصی لیب میں صاف اور تیار کیا جاتا ہے اور پھر اسےعورت کے انڈوں کے ساتھ ٹیوب میں ملا کر عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے۔ اس میں کبھی تو خود شوہر کے اسپرم کو اس کی بیوی ہی کے رحم میں رکھا جاتا ہے، اور کبھی کسی اجنبی مرد کا اسپرم لے کر اجنبی عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے، اور کبھی شوہر کے اسپرم اور عورت کے انڈوں کو ملا کر کسی اجنبی عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے۔
اجنبی مرد کے اسپرم کو لے کر اجنبی عورت کے رحم میں منتقل کرنا ،یا شوہر کے اسپرم اور بیوی کے انڈوں کو ملا کر کسی اجنبی عورت کے رحم میں رکھنا ،شرعاً ناجائز و حرام اور گناہ ہے، کیونکہ اس میں اجنبی مرد کا اپنے نطفے کو، اجنبی عورت کی شرمگاہ میں داخل کرنا پایا جاتا ہے، جو کہ زنا کے معنیٰ میں ہے، لہٰذا اس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں۔ جہاں تک شوہر کے اسپرم کو اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنے کی بات ہے، تو چونکہ یہ کام ہر کوئی خود سے نہیں کرسکتا، اس کے لیےڈاکٹر کی ضرورت رہتی ہے،تو اگر خود بیوی یا شوہرکے علاوہ کسی تیسرے بندے کا اس میں عمل دخل ہو، چاہے وہ لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، تو ایسی صورت میں اس کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی، کیونکہ اس میں بلا وجہ شرعی دوسرے کے سامنے ستر غلیظ کا کھولنا اور دوسرے کا اس کو دیکھنا اور چھونا پایاجاتا ہے، جو کہ ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے، ہاں اگر خود شوہر یا بیوی یہ عمل بجالائیں تو شرعاً اس کی اجازت ہے، کیونکہ ہمبستری کے ذریعے ہی حمل ٹھہرانا لازم و ضروری نہیں، اگر مذکورہ طریقے سے بھی حمل ٹھہرادیا جائے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس کام کے لیےشوہر کو مُشت زنی(اپنے ہاتھ سے منی خارج کرنا)جائز نہیں، بلکہ کسی جائز طریقے سے منی کو خارج کیا جائے، جیسے بیوی کے ہاتھ سے منی خارج کروالی جائے، یا پھر شوہر عزل کرلے، یعنی ہمبستری کرتے وقت جب انزال کا وقت آئے تو شوہر اپنا عضو باہر کرلے اور اسپرم محفوظ کرلے۔
اجنبی مرد کے اسپرم کو اجنبی عورت کے رحم میں منتقل کرنا، شرعاً ناجائز و حرام ہے، اور یہ زنا کے معنیٰ میں ہے، چنانچہ ابو داؤد کی حدیث مبارک ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره‘‘ ترجمہ:اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی سے دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے۔(ابوداؤد شریف،جلد 2، کتاب النکاح،صفحہ248، رقم الحدیث: 2158، المكتبة العصريہ، بيروت)
ہاں البتہ اگر شوہر ہی کے اسپرم کو بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے، تو شرعاً اس کی اجازت ہے،چنانچہ الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی میں ہے:’’التلقيح الصناعي:هو استدخال المني لرحم المرأة بدون جماع. فإن كان بماء الرجل لزوجته، جاز شرعاً، إذ لا محذور فيه۔۔۔وأما إن كان بماء رجل أجنبي عن المرأة، لا زواج بينهما، فهو حرام؛ لأنه بمعنى الزنا الذي هو إلقاء ماء رجل في رحم امرأة، ليس بينهما زوجية‘‘ ترجمہ:مصنوعی طور پر عورت کو حاملہ کرنا،اور وہ منی کو عورت کے رحم میں بغیر ہمبستری کے داخل کرنا ہے،اگر یہ معاملہ اپنی بیوی کے لیے شوہر کی منی کے ساتھ ہو تو شرعاً جائز ہے،کیونکہ اس میں کوئی قابل اجتناب چیز نہیں۔۔۔ اور اگر یہ معاملہ اجنبی مرد کی منی کے ساتھ، کسی ایسی عورت کے لیے ہو جن کے درمیان رشتہ زوجیت نہیں، تو یہ حرام ہے، کیونکہ یہ زنا کے معنی میں ہےجس میں ایک ایسے مرد کی منی، ایک ایسی عورت کے رحم میں داخل کرنا ہے، جن کے مابین نکاح کا رشتہ نہیں۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی،جلد4،صفحہ2649، دار الفكر ، دمشق)
فتاوی عالمگیری میں ہے:’’رجل عالج جاريته فيما دون الفرج فأنزل فأخذت الجارية ماءه في شيء فاستدخلته في فرجها فعلقت عند أبي حنيفة رحمه اللہ تعالى أن الولد ولده وتصير الجارية أم ولد له، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘ترجمہ:ایک شخص نے اپنی باندی سے فرج کے علاوہ میں مباشرت کی ،پھر اسے انزال ہوگیا،تو باندی نے اس کی منی کو کسی چیز میں لے لیا اور اپنی فرج میں داخل کردیا اور وہ حاملہ ہوگئی،تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بچہ اس شخص کا ہوگا اور اس کی باندی اس کی ام ولد ہوجائے گی،یونہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔(الفتاوی الھندیہ،جلد4، الباب الرابع عشر في دعوى النسب،صفحہ114،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
فتح القدیر میں ہے:’’وما قیل لا یلزم من ثبوت النسب منہ وطئوہ لان الحبل قد یکون بادخال الماء الفرج دون جماع فنادر‘‘ترجمہ:اور جو کہا گیا کہ کسی شخص سے نسب ثابت ہونے میں اس کا عورت سے وطی کرنا لازم نہیں آتا ،کیونکہ حمل کبھی بغیر جماع کے عورت کی شرمگاہ میں منی کو داخل کرنے سے بھی ہوتا ہے، یہ معاملہ نادر ہے۔(فتح القدیر،جلد4،کتاب الطلاق،باب ثبوت النسب،صفحہ 315،دار الکتب العلمیہ)
مگر یہ کام خود شوہر یا بیوی ہی کرسکتے ہیں ،کیونکہ بغیر شرعی ضرورت کے عورت اپنا ستر شوہر کے علاوہ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتی،چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ ترجمہ: اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے۔(القرآن الکریم،پارہ18،سورہ نور:31)
تفسیر خزائن العرفان میں تفسیرات احمدیہ کے حوالے سے ہے:’’حرہ (آزاد عورت) کا تمام بدن عورت(یعنی چھپانے کی چیز) ہے۔ شوہر اور مَحرم کے سوا کسی اور کے لئے اس کے کسی حصہ کو بے ضرورت دیکھنا جائز نہیں۔‘‘(تفسیر خزائن العرفان،سورہ نور،تحت الایۃ:31،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
جامع ترمذی کی حدیث مبارک ہے:’’عن عبد اللہ ،عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:المراۃ عورۃ‘‘ ترجمہ:حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عورت (پوری کی پوری)چھپانے کی چیز ہے۔(جامع ترمذی، ابواب الرضاع، صفحہ551،رقم الحدیث:1207،مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا ینظر الرجل الی عورۃ الرجل ،ولا المرأۃ الی عورۃ المرأۃ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:نہ مردکسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نظر کرے اور نہ ہی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نظر کرے۔(صحیح المسلم،کتاب الحیض،باب تحریم النظر الی العورات،صفحہ 205،رقم الحدیث:766،دار ابن کثیر)
مشت زنی ناجائز و گناہ ہے، چنانچہ در مختار میں ہے:”الاستمناء بالكف كره تحريما لحديث ناكح اليد ملعون “ ملخصاً۔ترجمہ:مشت زنی کرنا، مکروہ تحریمی ہے، (اس)حدیث پاک کی وجہ سے کہ ہاتھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے۔
البتہ مرد کا اپنی بیوی کے ہاتھ سے منی نکالنا شرعاً جائز ہے، چنانچہ رد المحتارعلی الدر المختار میں ہے:’’يجوز أن يستمني بيد زوجته أو خادمتہ‘‘ ترجمہ: اپنی بیوی یا لونڈی کے ہاتھ سے منی خارج کرنا، جائزہے۔(در مختار مع رد المحتار ،جلد3،صفحہ426،دار المعرفۃ،بیروت)
عورت کی اجازت سے عزل کرنا،جائز ہے،چنانچہ بحر الرائق میں ہے:’’أن العزل جائز بالإذن وهذا هو الصحيح عند عامة العلماء‘‘ترجمہ:بیشک عورت کی اجازت سے عزل کرنا، جائز ہے،اور یہی جمہور علماء کے نزدیک صحیح ہے۔(بحر الرائق،جلد3،صفحہ214،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم