جبڑے سے نیچے سرجری کے لیے داڑھی کاٹنا

جبڑے سے نیچے سرجری کے لیے داڑھی منڈوانا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک بارِیش شخص کو جبڑے کے نیچے غدود کا مرض لاحق ہے۔ ماہر ڈاکٹرز نے اِس کا واحد اور ناگزیر حل "Submandibular Gland Excision" سرجری کو قرار دیا ہے۔ ڈاکٹرز نے واضح کیا ہے کہ دواؤں یا کسی دوسرے طریقے سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے، بلکہ سرجری میں تاخیر مزید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جہاں چیرا لگایا جائے گا، اُتنے مخصوص حصے کو مکمل طور پر صاف کرنا ضروری ہے کہ، تاکہ سرجیکل ایریا میں انفیکشن کا خطرہ ختم ہو جائے۔ کیا ایسی صورتِ حال میں داڑھی کا مطلوبہ حصہ منڈوانے کی اجازت ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر واقعی یہی صورتِ حال ہے کہ جبڑے کے غدود میں ایسا مرض پیدا ہو گیا کہ ماہر ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق "Submandibular Gland Excision" سرجری کے علاوہ ادویات وغیرہ کی صورت میں کوئی علاج نہیں اور سرجری نہ کروانے کی صورت میں مرض بڑھنے اور سنگین نوعیت اختیار کرنے کا قوی اندیشہ ہے، تو ایسی مجبوری میں سرجری کرنے کے لیے جتنے حصے کے بال صاف کروانے کی ضرورت ہے، اتنی مقدار کے برابر داڑھی کے بال صاف کروانے کی اجازت ہے، اُس سے زائد ہر گز نہیں، کیونکہ ”شرعی ضرورت“ ممنوع امور کو بقدرِ ضرورت مباح کر دیتی ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:

الضرورات تبيح ‌المحظورات۔

ترجمہ: ضروریاتِ شرعیہ ”ممنوع اُمور“  کو مباح کر دیتی ہیں۔ (الاشباہ والنظائر، صفحہ 73، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

لیکن جو چیز ضرورتِ شرعی کے سبب مباح ہو، و ہ صرف اور صرف ضرورت کی حد تک محدود رہتی ہے، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے:

ما أبيح للضرورة يقدر ‌بقدرها۔

ترجمہ: جو چیز کسی ضرورتِ شرعی کے سبب مباح ہوئی، اُسے بقدرِ ضرورت ہی رکھا جائے گا۔ (الاشباہ والنظائر، صفحہ 73، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فقہاءِ اسلام نے سخت تکلیف یا کسی طبی آزمائش کے سبب عورت کو سر کے بالوں کے حلق کی اجازت دی ہے، چنانچہ فتاوٰی عالَم گیری میں ہے:

لو ‌حلقت ‌المرأة ‌رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا بأس به وإن فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه۔

ترجمہ: اگر عورت اپنا سر منڈوائے، تو اگر یہ کسی (شرعی ضرورت مثلاً شدید) تکلیف کے باعث ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر یہ عمل مردوں کی مشابہت میں ہو تو مکروہ اور گناہ ہے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 05، صفحہ 358، مطبوعہ مکتبۃ رشیدیۃ)

بضرورت داڑھی منڈوانے کے متعلق محققِ مسائلِ جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتھم العالیۃ لکھتے ہیں: چہرے یا گال یا منہ کی سرجری اگر جمال کے لیے نہ ہو، بلکہ کسی بیماری مثلاً کینسر وغیرہ کے لیے ہو اور بغیر داڑھی منڈائے یہ سرجری ممکن نہ ہو یا انفیکشن کا صحیح اندیشہ ہو تو بوجہ مجبوری بقدرِ ضرورت داڑھی کے بال صاف کرنے کی اجازت ہوگی۔ داڑھی منڈانا بالاتفاق خلافِ سنت ہے، مگر ناجائز و گناہ بھی ہے یا نہیں، یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ ہمارے فقہائے حنفیہ اِسے ناجائز و گناہ قرار دیتے ہیں اور فقہائے شافعیہ مباح۔ اس اختلاف کے باعث حرمت میں یک گونہ تخفیف پہلے ہی سے تھی اور اب مجبوری کی صورت میں واضح حرج کے لیے حرمت ہی ختم ہوگئی۔ (آپ کے مسائل، صفحہ 220، مطبوعہ مکتبہ برھان ملت، یو پی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9473

تاریخ اجراء 27 صفر المظفر1447ھ/ 22 اگست 2025ء