
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ہم نے اپنے گھر کے پیچھے جانور وغیرہ مثلاً بکرے، بطخیں رکھی ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ایک کتا بھی ہے۔ رات کو جانور پنجروں میں بند ہوتے ہیں تو کتے کو ان کے پاس چھوڑ دیتے ہیں۔ دن میں کتے کو اپنی چھت پر رکھتے ہیں۔ (چھت سے بھی وہ نیچے دیکھتا ہے اور تھوڑا دھیان رکھتا ہے۔) اگر اسے دن میں دوسرے جانوروں کے ساتھ رکھیں، تو کتا ان سے لڑتا ہے، ان کے پیچھے بھاگتا ہے، تنگ کرتا ہے۔
یہ بتا دیجیے کہ اس طرح کتا رکھ سکتے ہیں؟ اور اگر ہم اس کتے کے ساتھ کھیلیں اور کبھی اسے پارک سیر کےلیے لے جائیں تو ٹھیک ہے؟ پہلے ہم کتے کو پارک میں صبح سیر کے لیے نہیں لے کر جاتے تھے تو وہ موٹا اور سست ہوگیا تھا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شوقیہ طور پر کتا پالنا، جائز نہیں اور جس گھر میں شوقیہ طور پر بلاضرورت کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے بھی نہیں آتے البتہ اگر واقعی حفاظت کے لیے کتا پالنے کی ضرورت ہے تو پالا جا سکتا ہے اور جب شرعی اجازت کے طور پر کتا رکھا جائے تو اسے کھلانے پلانے میں شرعا حرج نہیں۔
کتے کی صحت کے پیش نظر اسے کچھ وقت کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ بھاگ دوڑ کر توانا رہے مگر اپنے ساتھ کتے کو پارک لے کر جانا ہمارے معاشرے میں شوقیہ طور پر کتے پالنے والوں کا طرز عمل ہے۔ نیز عموما شہروں میں حفاظت کے لیے کتے پالنے کی بھی حاجت نہیں ہوتی اور عموما گاؤں میں پارک نہیں ہوتے۔ لہذا اس پر غور کی حاجت ہے کہ واقعی کتا حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے یا کوئی اور مقصد ہے؟ اللہ کریم نیتوں اور مقاصد سے بھی باخبر ہے۔ اگر واقعی حفاظت کے لیے کتے کی ضرورت نہیں ہے تو کتا گھر میں نہ رکھیں، فورا اس عمل سے جان چھڑائیں اور سچی توبہ بھی کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
من اقتنی کلبا لا یغنی عنہ زرعا ولا ضرعا نقص کل یوم من عملہ قیراط
ترجمہ: جس نے ایسا کتا پالا جو کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کا کام نہ دے، اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط کم ہو گا۔ (صحیح البخاری، کتاب المزارعۃ، باب اقتناء الخ، ج 1، ص 312، کراچی)
بہار شریعت میں ہے: ”جانور یا زراعت یا کھیتی یا مکان کی حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے اور یہ مقاصد نہ ہوں تو پالنا ناجائز“ (بہار شریعت، ج 2، ص 809، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2135
تاریخ اجراء: 14 رجب المرجب 1446ھ / 15 جنوری 2025ء