کام نکلوانے کیلئے پیسے دینا جائز ہے؟

کام لینے میں رکاوٹ بننے والے کو رقم دے کر ہٹانا کیسا ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا کام گارمنٹس کا ہے۔ ہمارے شعبے میں مختلف کمپنیوں سے بچوں اور بچیوں کے سوٹ تیار کرنے کا ٹھیکہ لیا جاتا ہے۔ صورتحال یوں ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر کسی کمپنی نے زید کو ایک کام کا ٹھیکہ دینے کا ارادہ کیا ، جب زید اس کمپنی کو ریٹ دینے لگتا ہے تو مارکیٹ میں موجود دوسرا ٹھیکے دار،مثلاً بکر اس کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ یہ ٹھیکہ مجھے زید سے کم ریٹ پر مل جائے،اس موقع پر زید، بکر سے یہ معاملہ طے کرتا ہے کہ تم اس ٹھیکے سے دستبردار ہو جاؤ اور مزید رکاوٹ پیدا نہ کرو، بدلے میں، میں تمہیں ڈھائی لاکھ یا پانچ لاکھ روپے (ٹھیکے کی نوعیت اور مالیت کے حساب سے) ادا کر دوں گا، بکر یہ رقم لے کر خاموش ہو جاتا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح رقم لینا شرعاً جائز ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس طرح رقم لینا جائز نہیں، وہ رقم رشوت ہے ،جوکہ سخت ناجائز و حرام ہے ، کیونکہ یہاں جو رقم دی جارہی ہے ، وہ کسی چیز کے بدلے میں نہیں دی جارہی ، بلکہ صرف اپنا کام بنانے کیلئے دی جارہی ہے ، تاکہ وہ ٹھیکہ صرف مجھے ملے ، دوسرا نہ لینے پائے اور جو رقم محض اپنا کام بنانے کیلئے کسی کو دی جائے، وہ رشوت ہوتی ہے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۲))

ترجمہ کنز العرفان:اور تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں دوڑے جاتے ہیں۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔ (القرآن الکریم ، پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 62)

مؤطا امام محمد میں ہے،

والعبارۃ بین الھلالین من التعلیق الممجد :  عن سليمان بن يسار: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم كان يبعث عبد اللہ بن رواحة فيخرص بينه وبين اليهود، قال: فجمعوا حليا من حلي نسائهم، فقالوا : هذا لك، وخفف عنا، وتجاوز في القسمة، فقال: يا معشر اليهود، واللہ إنكم لمن أبغض خلق اللہ إلي، وما ذاك بحاملي أن أحيف عليكم، أما الذي عرضتم(أي أحضرتم عندي لتخفيف القسمة) من الرشوة فإنها سحت و إنا لا نأكلها(ای لحرمتھا) ، قالوا: بهذا قامت السموات و الأرض

ترجمہ: سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو (خیبر) کے یہودیوں کے پاس بھیجتے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے درمیان کھجوروں کی پیداوار کا اندازہ لگائیں (یعنی تقسیم کا حساب کریں) کہتے ہیں کہ یہودیوں نے اپنی عورتوں کے زیورات جمع کر کے ان کے سامنے پیش کیے اور کہا: یہ آپ کے لیے ہے، (بس) ہمارے حصے میں کمی کر دیں اور تقسیم میں چشم پوشی سے کام لیں۔ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے یہود کے گروہ! اللہ کی قسم! تم لوگ مجھے اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ ناپسند ہو، لیکن یہ بات مجھے تم پر ظلم کرنے پر آمادہ نہیں کرے گی۔ رہی وہ چیز جو تم مجھے تقسیم میں چشم پوشی اور تخفیف کیلئے دینا چاہتے ہو تو وہ رشوت ہے ، جوکہ سُحت یعنی حرام مال ہے، اور ہم اسے حرام ہونے کی وجہ سے نہیں کھاتے۔ یہودیوں نے کہا: اسی (انصاف) کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ (المؤطا للامام محمد مع التعلیق الممجد، ج 03، ص 310، دار القلم، دمشق)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:

لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم الراشی و المرتشی

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (سنن ابو داؤد، کتاب القضاء، باب فی کراھیۃ الرشوۃ، ج 2، ص 148، مطبوعہ لاھور)

بحر الرائق میں ہے:

وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد۔۔وذكر الأقطع أن الفرق بين الهدية والرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه والهدية لا شرط معها

ترجمہ:اور مصباح میں ہے کہ رشوت راء کے کسرہ کے ساتھ اس چیز کا نام ہے،جوآدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے ابھارے اُس کام پر، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے،اور امام اقطع علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ہدیہ اور رشوت میں فرق یہ ہےکہ رشوت وہ مال ہے، جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کو ئی شرط نہ ہو۔(البحر الرائق، ج05،ص 285، دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” وزن کشی کے ٹھیکہ سے اگر یہ مراد ہے کہ "تولا"کچھ روپے زمیندار کو دے کہ اس سال گاؤں بھر کی "راسیں" وہی تولے دوسرانہ تولنے پائے، اور وہ ہر کاشت کار سے اپنے تولنے کی اجرت لے تو یہ محض حرام، اور وہ روپیہ جو زمیندار کو دیا ،نِری رشوت ہے۔ اور دوسرے کو تول سے ممانعت محض ظلم ہے۔ اس کی نظیر اسٹیشن پرسودا بیچنے کا ٹھیکہ ہے کہ بیع تو اس میں اور خریداروں میں ہوگی،یہ ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں،دوسرانہ بیچنے پائے، یہ شرعا خالص رشوت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، ج 19، ص 559، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0624

تاریخ اجراء: 23 صفر المظفر 1447ھ/18 اگست 2025ء