Kali Mehendi Nakhunon Par Lagana Kaisa?

کالی مہندی ناخنوں پر لگانا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-458

تاریخ اجراء:24 ذی الحجۃ الحرام5144ھ/01جولائی2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا  عورت کالی مہندی ناخنوں  پر لگاسکتی ہے؟کیا اس کو لگاکر نماز پڑھنے سے نماز  ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کالا کلر یا کالی مہندی لگانے کی ممانعت بالوں سے متعلق ہے،یعنی مرد کے لیے اپنے سر یا داڑھی کے بالوں   میں اور عورت کے لیے اپنے سر کے بالوں میں کالا کلر یا کالی مہندی  لگانا، جائز نہیں،اس کے علاوہ   عورت کے لیے ہاتھ، پاؤں، ناخنوں پر کالا کلر،یا   کالی مہندی لگانا  ہرگز ممنوع نہیں کہ یہ عورت کے لیے  باعث زینت ہے، لہٰذاعورت اپنے  ناخنوں  پر  کالی مہندی  لگاسکتی ہے، فی نفسہ ٖاس کی ممانعت نہیں۔ جہاں تک مہندی لگاکر نماز کی ادائیگی کا  سوال ہے، تو  کالی مہندی ہو یا کوئی اور مہندی، اُسے  لگا کر نماز پڑھنے سے نماز کے ادا  ہونے یا  نہ ہونے سے متعلق تفصیل یہ  ہے کہ اگر    مہندی ایسی  ہے جس کو دھونے سے اس کا مکمل جِرم اتر جاتا ہے، ناخنوں پر اس کی تہہ نہیں بنتی، بلکہ  صرف  اس کا  رنگ   ہی  ناخنوں  پرباقی رہ جاتا ہے، تو چونکہ  ایسی مہندی دھلنے اور اس کے جرم اترنے کے بعد پانی کو ناخن تک پہنچے  سے رکاوٹ نہیں بنے  گی، لہذا ایسی مہندی کے ناخن پر  لگے رہنے سے  ناخن پر  پانی بہہ جائے گا، جس سے  وضو و غسل ہو جائے گا، اور نماز بھی ہوجائے گی۔

   لیکن اگر مہندی  ایسی ہے  کہ جس کو   لگانے سے ناخنوں پر تہہ بنتی ہے، جو وضو و غسل میں ناخنوں تک پانی پہنچنے سے رکاوٹ ہے، تو ایسی  مہندی کے ناخن پر  لگے ہونے کی حالت میں نماز پڑھنے سےنمازنہیں ہوگی، کیونکہ وضو و غسل میں ناخنوں پر بھی کم سے کم پانی کے دو قطرے بہہ جانا  ضروری ہے، اور مہندی کے ناخنوں پر لگے ہونے کی صورت میں وضو و غسل میں ناخنوں تک پانی نہیں پہنچے گا اور اس طرح وضو وغسل  نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی۔ البتہ اگر وضو وغسل سے پہلے اسے ناخنوں سے صاف کرلیا   اور پھر وضو یا غسل کرکے نماز ادا کی، تو اب وضو وغسل کے صحیح ہوجانے کی صورت میں نماز ہوجائے گی، ہاں اگر  اُسے   اتارنا، ممکن نہ ہو، یا اُتارنے میں شدید حرج  ہو، تو  اب حرج و مشقت کی وجہ سے اُس مہندی والی جگہ کےنچلے حصے کو دھونا معاف ہوجائے گا، اور  اس کے لگے ہونے کی حالت میں ہی وضو  و غسل درست ہوجائے گا  اور نماز  بھی ہوجائے گی، لیکن اپنے ارادےسے ایسی حالت پیدا کرنا جو  وضو و غسل اور فرض یا واجب  عبادت کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے، یہ شرعاً    ناجائز و گناہ ہے۔

   سیاہ خضاب کی  ممانعت سے متعلق  سنن ابی داؤد اور سنن نسائی شریف  میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث  مبارک ہے:واللفظ للاول:’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:یکون قوم یخضبون فی آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لایریحون رائحۃ الجنۃ‘‘ترجمہ: حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو  سیاہ خضاب کریں گے، جیسے کبوتروں کے پوٹے،وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ پائیں گے۔(سنن ابی داؤد،باب ما جاء فی خضاب السواد،رقم الحدیث:4212،صفحہ877، مؤسسۃالرسالہ، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ  حدیث پاک کی شرح  میں دحدیحفرماتے ہیں:’’یعنی اپنے سر اور داڑھی کے بال خالص سیاہ کیا کریں گے جیسے کبوتروں کے پوٹے خالص سیاہ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے صراحۃ ًمعلوم ہوا  کہ سیاہ خضاب حرام ہے، خواہ سر میں لگائے یا داڑھی میں،مرد لگائے یا عورت ،سب اِسی ممانعت میں داخل ہیں۔۔۔ (البتہ) ہاتھ پاؤں میں مہندی وغیرہ سے خضاب عورتوں کو جائز، مردوں کے لیے ممنوع۔‘‘(مرآۃ المناجیح،جلد6، صفحہ 134، مطبوعہ کراچی)

   ناخنوں پر جرم دار مہندی  کا اتارنا، ممکن ہو، تو  وضو و غسل کے لیے اسے اتارنا   ہوگا، بغیراتارے   وضو و غسل نہ ہوگا،اور نماز نہیں ہوگی،چنانچہ فتح القدیراور فتاوی عالمگیری میں ہے:واللفظ للاول:’’و لو لزق بأصل ظفرہ طین یابس و نحوہ أو بقی قدر رأس الإبرۃ من موضع الغسل لم یجز‘‘ترجمہ: اگر اس کے ناخن کے اوپر خشک مٹی یا اس کی مثل کوئی اور چیز چپک گئی یا دھونے والی جگہ پر سوئی کے ناکے کے برابر باقی رہ گئی، تو جائز نہیں ہے( یعنی وضوو غسل  نہیں ہو گا۔)(فتح القدیر مع الھدایہ، جلد1، صفحہ13، مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر جرم دار مہندی کے اتارنے میں مشقت و حرج ہو،تو اس کا  اتارنا معاف ہوگا،اوراسے اتارے بغیر بھی وضو وغسل ہوجائے گا، اور نماز ہوجائے گی،جیسا کہ سیدی اعلی حضرت  امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن  فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:”حرج کی تین صورتیں ہیں:ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو ،جیسے آنکھ کے اندر۔دوم مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے ،جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔“(فتاوی رضویہ،جلد1،حصہ دوم، صفحہ 611,610،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اپنے ارادے سے ایسی حالت پیدا کرنا جو وضو و غسل، اور فرض یاواجب  عبادت کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے، ناجائز و گناہ ہے،جیسا کہ ایک مسئلے سے متعلق سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ  میں  فرماتے ہیں:”اگر حقہ سے منہ کی بو متغیر ہو، بے کلی کئے منہ صاف کئے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں۔۔۔مگر جو حقہ ایسا کثیف و بے اہتمام ہو کہ معاذ اللہ تغیرِباقی پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک بو زائل نہ ہو، تو قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دخولِ مسجد کا موجب ہو گا اور یہ ممنوع و ناجائز ہیں اور ہر مباح فی نفسہ ٖ کہ امرِ ممنوع کی طرف مؤدی  ہو، ممنوع و ناروا۔“(فتاوی رضویہ، جلد25، صفحہ94، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم