دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون کی طرف سے سوال ہے کہ مجھے ابھی حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ میرے ریولان (Revlon) ہیئر ڈرائیر برش میں خنزیر کے بال (Boar bristles) استعمال ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسا برش استعمال کرنا درست ہے؟ اور اگر ایسا برش استعمال کر کے کسی نے نماز ادا کر لی ہو تو اس نماز کا کیا حکم ہوگا ؟ کیا وہ نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس ہیئر برش (Hair brush) میں خنزیر کے بال (Boar bristles) لگے ہوں اسے استعمال کرنا، جائز نہیں ہے، کیونکہ خنزیر کے دیگر اجزاء کی طرح اس کے بال بھی ناپاک ہیں۔ اور بلا ضرورت ناپاک چیز سے انتفاع (نفع اٹھانا) اور اسے استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔
اور ایسا برش اگر اپنے بالوں میں کسی نے استعمال کیا، تو اگر اس کے بال گیلے تھے، تو وہ بال بھی ناپاک ہو جائیں گے؛ کیونکہ بالوں پر لگا پانی اس برش سے ٹچ ہوتے ہی ناپاک ہو جائے گا اور پھر بال بھی ناپاک ہو جائیں گے۔ یونہی اگر یہ برش گیلا تھا، تو ناپاکی بالوں تک چلی جائے گی۔ ہاں اگر خشک بالوں میں یہ خشک برش پھیرا، تو پھر بال ناپاک نہیں ہوں گے؛ کیونکہ برش میں موجود خنزیر کے بالوں کی ناپاکی سر کے خشک بالوں میں ٹرانسفر نہیں ہوگی۔
اس تفصیل سے نماز کا حکم بھی واضح ہوگیا کہ اگر کسی نے گیلے بالوں میں اس برش کا استعمال کیا اور بالوں کا ایک درھم سے زیادہ حصہ ناپاک ہوگیا اور پھر اسی طرح بغیر پاک کئے نماز ادا کر لی، تو وہ نماز نہیں ہوئی۔ ایسی نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم ہے۔ اور اگر خشک بالوں پر برش پھیرا تھا، تو پھرچونکہ بال ناپاک نہیں ہوئے، اس لئے نماز درست ہو گئی۔
نوٹ: واضح رہے کہ پہلے زمانے میں علماء نے چمڑا سینے کے لئے خنزیر کے بال استعمال کرنے کی ضرورتاً اجازت دی تھی؛ کیونکہ اس وقت چمڑا سینے کے دیگر اوزار آسانی سے میسر نہیں ہوتے تھے۔ لیکن صحیح قول کے مطابق اس زمانے میں بھی خنزیر کا بال نجس ہی تھا، اگرچہ ضرورتا اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ لیکن بعد میں جب چمڑا سینے کے بھی دیگر اوزار میسر ہو گئے، تو خنزیر کے بال سے نفع اٹھانے کی اجازت بھی ختم ہوگئی۔ اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو آج کل سر کے بالوں میں کنگھا کرنے کے لئے خنزیر کے بال استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس لئے اس کی اجازت کسی طرح نہیں ہو سکتی۔
عبارات علماء و حوالہ جات درج ذیل ہیں:
خنزیر کے ناپاک ہونے کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ ﴾ ترجمہ: کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ (سورہ انعام، آیت: 145)
ملِکُ العلماء علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
”(وأما) الخنزير: فقد روي عن أبي حنيفة أنه نجس العين، لأن الله تعالى وصفه بكونه رجسا فيحرم استعمال شعره وسائر أجزائه، إلا أنه رخص في شعره للخرازين للضرورة. . . . . . . ولو وقع شعره في الماء القليل، روي عن أبي يوسف أنه ينجس الماء، وعن محمد أنه لا ينجس ما لم يغلب على الماء كشعر غيره. وروي عن أصحابنا في غير رواية الأصول أن هذه الأجزاء منه طاهرة؛ لانعدام الدم فيها، والصحيح أنها نجسة؛ لأن نجاسة الخنزير ليست لما فيه من الدم والرطوبة بل لعينه“
جہاں تک تعلق ہےخنزیر کا: تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہوا کہ وہ نجس العین ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا "رجس" (ناپاک) ہونا بیان کیا ہے، لہٰذا اس کے بالوں اور دیگر اجزاء کا استعمال حرام ہے، البتہ چمڑا سینے والوں کے لیے مجبوری کی حالت میں اس کے بالوں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ اور اگر اس کے بال کم پانی میں گر جائیں، تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ پانی ناپاک ہو جاتا ہے، اور امام محمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ بال پانی پر غالب نہ آ جائیں، جیسے کہ دوسرے نجس چیزوں کے بالوں کا حکم ہے۔ اور ہمارے اصحاب سے اصول کی روایات کے علاوہ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ اس کے یہ اجزاء (مثلاً بال وغیرہ) پاک ہیں، کیونکہ ان میں خون موجود نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ اجزاء ناپاک ہیں، کیونکہ خنزیر کی نجاست خون یا رطوبت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی ذاتی حقیقت (ذات) کی وجہ سے ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ 63، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اسی میں ہے:
”وأما شعره فقد روي: أنه طاهر يجوز بيعه والصحيح أنه نجس لا يجوز بيعه؛ لأنه جزء منه إلا أنه رخص في استعماله للخرازين للضرورة“
رہا خنزیر کا بال، تو ایک روایت میں ہے کہ وہ پاک ہے اور اس کی خرید و فروخت جائز ہے، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ وہ ناپاک ہے اور اس کی بیع جائز نہیں، کیونکہ وہ خنزیر کا ایک جزو ہے۔ البتہ چمڑا سینے والوں کے لیے مجبوری کی حالت میں اس کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ 142، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
محیط برہانی میں ہے:
”وأما شعر الخنزير فهو نجس هو الظاهر في مذهب أبي حنيفة رحمة الله عليه“
یعنی رہا خنزیر کا بال، تو وہ ناپاک ہے، اور یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں ظاہر قول ہے۔ (المحيط البرهاني، جلد1، صفحہ 476، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
”على قول أبي يوسف الذي هو ظاهر الرواية أن شعره نجس وصححه في البدائع ورجحه في الاختيار. فلو صلى ومعه منه أكثر من قدر الدرهم لا تجوز، ولو وقع في ماء قليل نجسه، وعند محمد لا ينجسه أفاده في البحر. وذكر في الدرر أنه عند محمد طاهر لضرورة استعماله أي للخرازين. قال العلامة المقدسي: وفي زماننا استغنوا عنه أي فلا يجوز استعماله لزوال الضرورة“
امام ابو یوسف کا قول، جو ظاہر الروایہ ہے، اس کے مطابق خنزیر کا بال ناپاک ہے، اور یہی بات "البدائع" میں صحیح قرار دی گئی ہے اور "الاختیار" میں اسی کو راجح کہا گیا ہے۔ پس اگر کسی نے نماز پڑھی اور اس کے ساتھ خنزیر کے بال درہم کی مقدار سے زیادہ موجود ہو تو نماز درست نہ ہو گی، اور اگر وہ بال کم پانی میں گر جائے تو پانی کو ناپاک کر دے گا۔جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک وہ پانی کو ناپاک نہیں کرتا، جیسا کہ "البحر" میں ذکر کیا ہے۔ اور "الدرر" میں ذکر ہے کہ امام محمد کے نزدیک وہ بال پاک ہے، استعمال کی ضرورت کی وجہ سے، یعنی چمڑا سینے والوں کے لیے۔علامہ مقدسی نے فرمایا: ہمارے زمانے میں اس سے بے نیازی ہو چکی ہے، یعنی چونکہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اس کا استعمال جائز نہیں۔ (رد المحتار، جلد1، صفحہ 206، دار الفکر، بیروت)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
”عند زوال الضرورۃ یجب وفاق الکل علی التحریم والتنجیس کما افادہ العلامۃ المقدسی وتبعہ العلاّمۃ نوح افندی ومن بعدہ وھو الذی نعتقد فی دین اللہ سبحنہ وتعالٰی“
ضرورت نہ ہونے کی صورت میں خنزیر کے بال کی حرمت اور نجاست پر سب ائمہ کا متفق ہونا ہی لازم ہے جیسا کہ علامہ مقدسی (کے کلام) سے اس بات کا فائدہ حاصل ہُوا اور علامہ نوح آفندی اور ان کے بعد والوں نے ان کی اتباع کی اور دین خداوندی میں ہم بھی اسی بات کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ430، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
ناپاک خشک چیز اگر پاک خشک چیز کو لگے اور ناپاکی کا اثر پاک چیز پر ظاہر نہ ہو تو پاک چیز پاک ہی رہتی ہے جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
”السرقين الجاف أو التراب النجس إذا هبت الريح فأصاب ثوبا لا يتنجس ما لم ير فيه أثر النجاسة. هكذا في فتاوى قاضي خان“
یعنی خشک گوبر یا ناپاک مٹی، اگر ہوا کے ذریعے اڑ کر کسی کپڑے کو لگ جائے، تو جب تک نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو، کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ یہی "فتاویٰ قاضی خان" میں مذکور ہے۔ (الفتاوى الهندية، جلد1، صفحہ 47، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: محمدساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0231
تاریخ اجراء : 13 شوال المکرم 1446 ھ/12 اپریل 2025ء