
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ شادی بیاہ کے موقع پر رشتہ دار یا جاننے والے اہل خانہ میں سے کسی کو کچھ رقم دیتے ہیں، جسے نیوتا / نیندرہ بھی کہا جاتا ہے اوراس رقم دینےکا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب دینے والے کے گھر میں کوئی خوشی شادی کا موقع ہو، تو انہیں اضافہ کے ساتھ یہ رقم واپس کی جائے۔ شرعی اعتبار سے نیوتا کی رقم کا لین دین جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر اضافہ کے ساتھ رقم واپس کی جائے، تو کہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں چلی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شادی بیاہ کے موقع پہ ملنے والا نیندرہ / نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور یہ سود کے زمرے میں نہیں جاتا۔ لیکن جہاں تک ممکن ہو سکے، نیوتا کی مروجہ رسم کو ختم کرنا چاہئے۔
مزید تفصیل اس کی یہ ہے کہ شادی بیاہ وغیرہ پہ جو رقم دی جاتی ہے، اس کی دو صورتیں ہیں:(1) جہاں برادری نظام ہوتا ہے، وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے یا یاد رکھتے ہیں کہ کس نے کتنی دی۔ پھر جب دینے والے کے گھر کسی دعوت وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے، تو یہ اتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ رقم واپس کرتا ہے اور یہ بھی اس رقم حساب رکھتا ہے۔ (2)بعض جگہ برادری نظام نہیں ہوتا یا غیر برادری کے لوگ دوستی، عقیدت یا خیرخواہی کی نیت سے دیتے ہیں اور پھر واپس لینے کی طرف ان کی نظر نہیں ہوتی۔
دونوں صورتوں میں اس کا وصول کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ پہلی صورت میں اس کا واپس کرنا ضروری ہو گا، کیونکہ جہاں برادری سسٹم میں اس کا حساب رکھا جاتا ہے، وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو واپس کرتا ہے، تو یا اتنی ہی لوٹاتا ہے یا پھر زیادہ رقم دیکر اس پر مزید قرض چڑھا دیتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض ہے، لہذا اس کی ادائیگی ضروری ہو گی، لیکن اس پر ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے۔ اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا غیربرادری کے لوگ دوستی یا عقیدت میں دیتے ہیں، وہاں یہ رقم بطورِ ہبہ و تحفہ ہوتی ہے، لہذا اِس صورت میں اُس رقم کا واپس کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی دینے والا اس رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
بہر صورت یہ سود کے زمرے میں نہیں جاتا، کیونکہ دوسری صورت میں تو سود نہ ہونا ظاہرہے، کہ وہ رقم دینے والوں کی طرف سے ہبہ و تحفہ ہوتی ہے، تو اس رقم کا لینا دینا نہ صرف جائز، بلکہ اچھی نیت سے دینے پر ثواب کے حقدار بھی ہوں گےاور صورتِ اول یعنی بصورتِ قرض بھی اس پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی، کیونکہ سود عاقدین میں سے کسی ایک کے لئے عقدِ معاوضہ میں ثابت ہونے والی اُس مشروط زیادتی کو کہتے ہیں، جو عوض سے خالی ہو، جبکہ نیوتے میں دی جانے والی اضافی رقم عوض سے خالی نہیں ہوتی، وہ اس طرح کہ مثلاً اگر کوئی شخص دوسرے کو 1000 روپے دے کر آیا تھا اور وہ اِسے 1500 دیتا ہے، تو دینے والا ان میں سے 1000 روپے کے ذریعے سابقہ قرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے، جبکہ بقیہ 500 اس کی طرف سے پہلے شخص پر بطورِ قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔
نوٹ: مذکورہ تفصیل سے واضح ہو گیا کہ نیندرہ / نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے، لیکن جہاں تک ممکن ہو سکے، اس رسم کو ختم کرنا چاہئے کہ یہ رسم معاشرتی نظام میں مختلف فسادات کا سبب بنتی ہے، تو اگر کسی کو شادی بیاہ یا کسی بھی موقع پہ رقم وغیرہ دینی ہو، تو خالصتاً رضائے الٰہی عزوجل پانے کے لئے دی جائے تا کہ اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی حاصل ہو اور جو یہ چاہتا ہو کہ میں اس قرض سے بچ جاؤں، اسے چاہئے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا، تو میں بھی دینے والے کی تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی، وہ قرض نہیں، بلکہ تحفہ ہوگی اور بعد میں واپس نہ بھی کی، تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں، تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔ (پارہ 21، سورۃ الروم، آیت 39)
اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں (جاننے والوں) کو یا اور کسی شخص کو اس نیت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے، لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہو گی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہ تعالیٰ نہیں ہوا۔ (تفسیرِ خزائن العرفان، صفحہ 735، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
و في الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص الى غيره في الاعراس و نحوها، هل يكون حكمه حكم القرض، فيلزمه الوفاء به ام لا؟ اجاب: ان كان العرف بانهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثليا فبمثله و ان قيميا فبقيمته و ان كان العرف خلاف ذلك بان كانوا يدفعونه على وجه الهبة و لا ينظرون في ذلك الى اعطاء البدل، فحكمه حكم الهبة في سائر احكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك او الاستهلاك و الاصل فيه: ان المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً ، قلت: و العرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى انهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فاذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر، فيهدي الاول الى الثاني مثل ما اهدى اليه
ترجمہ: فتاوی خیریہ میں سوال ہوا کہ ایک شخص شادیوں وغیرہ میں دوسرے کی طرف جو چیزیں بھیجتا ہے، کیا ان کا حکم قرض کی طرح ہے کہ اسے ادا کرنا لازم ہو یا نہیں؟ مصنف نے جواب دیا کہ اگر عرف یہ ہو کہ لوگ بدل کے طور پر دیتے ہیں، تو ادائیگی لازم ہے، دی جانے والی چیز اگر مثلی ہے، تو اس کی مثل لوٹائے اور قیمی ہو، تو قیمت واپس کرے اور اگر عرف اس کے خلاف ہو اور دینے والے یہ چیزیں بطورِ ہبہ دیتے ہوں اور اس کے بدلے ملنے والی چیز کی طرف ان کی نظر نہ ہوتی ہو، تو یہ تمام احکام میں ہبہ کی طرح ہے، لہذا اس چیز کے ہلاک ہو جانے یا ہلاک کر دینے کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا اور اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ جو معہود ہوتا ہے وہ مشروط کی طرح ہی ہوتا ہے، (علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں: یہ عرف ہمارے شہروں میں مشترک ہےیعنی کہیں کچھ اور کہیں کچھ، بعض علاقوں میں اسے قرض شمار کرتے ہیں، حتی کہ وہ ہر دعوت میں ایک لکھنے والا بلاتے ہیں، جو ملنے والی چیزوں کو لکھتا ہے اور جب دینے والا کوئی دعوت کرتا ہے، تو وہ لکھے ہوئے کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی کی مثل چیز دیتا ہے، جو اُس نے اِسے دی تھی۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الھبۃ، جلد 8، صفحہ 582 تا 583، مکتبہ حقانیہ، پشاور)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: نیوتا وصول کرنا شرعا جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 268، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں: اب جونیوتاجاتاہے وہ قرض ہے، اس کا اداکرنالازم ہے، اگررہ گیا تومطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا،و المسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ۔چارہ کاریہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں مضائقہ نہیں، مجھ سے ممکن ہوا تواُن کی تقریب میں امداد کروں گا، لیکن میں قرض لینانہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے، جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تومطالبہ نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 586، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں، اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں، ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا۔ عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں، اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دیے جاتے ہیں، تو ہرایک شخص کا نام اور رقم تحریر کرلیتے ہیں، جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جا چکا ہے، فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اُس نے دیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پا کر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا، اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماًہندوستان میں ہے۔ (بہار شریعت، حصہ 14، صفحہ 80، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
سود کی تعریف ہدایہ شریف میں کچھ یوں ہے:
الربا ھو الفضل المستحق لاحد العاقدین فی المعاوضۃ الخالی عن عوض شرط فیہ
یعنی سود عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے عقد معاوضہ میں ثابت ہونے والی اس مشروط زیادتی کو کہتے ہیں جو عوض سے خالی ہو۔ (الھدایۃ، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 82، مکتبہ رحمانیہ، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7583
تاریخ اجراء: 27 شوال المکرم 1446ھ / 26 اپریل 2025ء