مرد و عورت کیلئے مشترکہ کپڑوں کا استعمال جائز ہے؟

جو کپڑے مرد و عورت کسی کے ساتھ خاص نہ ہوں، انہیں استعمال کرنے کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایسے کپڑے، جو مرد و عورت کسی کے لئے خاص نہیں ہوتے، بلکہ دونوں کے لئے کامن ہوتے ہیں، تو کیا ایسے کپڑے مرد و عورت دونوں پہن سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایسے کپڑے جو مرد و عورت دونوں کے لیے مشترک ہوں، اور کسی ایک جنس کے لیے مخصوص نہ ہوں، ایسے کپڑے مرد و عورت دونوں استعمال کر سکتے ہیں، کہ اس میں مرد کا عورت کےساتھ یا عورت کامرد کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نہیں ہے، اور ممانعت مشابہت اختیار کرنے ہی کی ہے۔

 بخاری شریف میں ہے

لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشابھات من النساء بالرجال

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے مشابہت رکھنے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت رکھنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاری، صفحہ 1090، حدیث: 5885، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

عمدۃ القاری میں ہے

تشبہ الرجال بالنساء فی اللباس والزینۃ التی تختص بالنساء مثل لبس المقانع و القلائد و المخانق و الاسورۃ والخلاخل والقرط ونحو ذلک مما لیس للرجال لبسہ

ترجمہ: مردوں کا عورتوں کے ساتھ اس لباس وزینت میں مشابہت اختیارکرنامنع ہے، جو عورتوں کے ساتھ خاص ہے، مثلا اوڑھنی، ہار، مالا، کنگن، پازیب، بالی اوران کی مثل وہ چیزیں، جو مرد نہیں پہنتے۔ (عمدۃ القاری، جلد 22، صفحہ 41، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

التوضيح لشرح الجامع الصحیح میں ہے

لا يجوز للرجال التشبه بالنساء في اللباس والزينة التي هي للنساء خاصة، و لا يجوز للنساء التشبه بالرجال مما كان من ذلك للرجال خاصة

ترجمہ: مردوں کا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، اس لباس و زینت میں جائز نہیں ،جو عورتوں کے لئےہی خاص ہو، اور عورتوں کا مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ، اس لباس وغیرہ میں جائز نہیں، جو مردوں کے لئے خاص ہو۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح، جلد 28، صفحہ 100، دار الفلاح)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یعنی عورَتوں کو مردانہ جوتا نہیں پہننا چاہیے، بلکہ وہ تمام باتیں جن میں مردوں اور عورتوں کا امتیاز ہوتا ہے، ان میں ہر ایک کودوسرے کی وَضع اختیار کرنےسے مُمانَعَت ہے، نہ مرد عورت کی وَضع اختیار کرے، نہ عورت مرد کی۔“ (بہارِشريعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 442، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4510

تاریخ اجراء: 10 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 02 دسمبر 2025ء