
مجیب:محمدعرفان مدنی
مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:GRW-1549
تاریخ اجراء:09رجب المرجب1446 ھ/10جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ گاؤں دیہات وغیرہ میں بعض مقامات پر پانی کا فلٹر لگا ہوتا ہے ،جس کے ساتھ ٹینکی بھی ہوتی ہے،جس میں اولاً پانی جمع ہوتا ہے،پھر فلٹر مشین سے فلٹر ہوکر ٹونٹیوں سے نکلتا ہے،اور بعض مقامات پر پانی کے بور ہوتے ہیں،جن کے ساتھ کوئی ٹینکی وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ زمین سے لگاتار جاری پانی ہی ٹونٹیوں سے آتا ہے،اب جن گھروں میں صاف پانی میسر نہیں ہوتا وہ فلٹریا بور کا پانی استعمال کرتے ہیں،ایسی صورت میں گھر میں اگر پانی لانے کے لیےکوئی بالغ فرد موجود نہ ہو تو نابالغ بچے سے فلٹر یا بور سے پانی بھروانا کیسا؟نیز اس کے بھرے ہوئے پانی کو والدین سمیت دیگر بہن بھائیوں کا استعمال کرنا کیسا؟اگر جائز نہیں ہے تو کوئی حیلہ ارشاد فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں دوطرح کے پانیوں کاذکرکیاگیاہے توجواب میں دونوں کاعلیحدہ علیحدہ حکم بیان کیاجائے گا:
(1)جس صورت میں پانی ٹینکی وغیرہ میں اولامحفوظ ہوجاتاہے پھراس کے بعدلوگوں تک پہنچتاہے توایسی صورت میں ٹینکی وغیرہ جس کی ملک ہوگی وہ پانی بھی اسی کی ملک ہوگاتویہ پانی مباح مملوک کہلائے گااورمباح مملوک پانی نابالغ کے بھرنے سے اس کی ملک نہیں ہوتابلکہ وہ اصل مالک کی ملک پرباقی رہتاہےاورمالک کی طرف سے سبھی کووہ پانی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے لہذانابالغ کااس طرح کابھراہواپانی دوسرے افراداستعمال کرسکتے ہیں اورولی کی اجازت سے ایساپانی اس سے بھروابھی سکتے ہیں ۔
درمختارمیں ہے
"(ولكل حقها في كل ماء لم يحرز بإناء) أو حب "
ترجمہ:اورہرکسی کوحق ہے اس پانی سے خودبھی پینے اوراپنے جانوروں کوبھی پلانے کاکہ جسے کسی برتن یامٹکے کے ذریعے محفوظ نہیں کیاگیا۔
اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے "(قوله لم يحرز بإناء) ۔۔۔ فلو أحرزه في جرة أو حب أو حوض مسجد ۔۔۔وانقطع جريان الماء فإنه يملكه، وإنما عبر بالإحراز: أي لا الأخذ إشارة إلى أنه لو ملأ الدلو من البئر ولم يبعده من رأسها لم يملكه عند الشيخين إذ الإحراز جعل الشيء في موضع حصين"
ترجمہ:پس اگرکسی نے پانی کسی گھڑے یامٹکےیامسجدکے حوض میں محفوظ کرلیااورپانی کابہناموقوف ہوگیاتووہ اس پانی کامالک ہوجائے گا اوراحرازکے ساتھ ہی تعبیرکیاگیاہےاخذ(لینے)سے تعبیرنہیں کیاگیا،اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اگرڈول کوکنویں سے بھرااورکنویں کی منڈیرسے اسے جدانہیں کیاتوشیخین کے نزدیک وہ اس کامالک نہیں ہوگاکیونکہ احرازکامطلب ہے:کسی شے کومحفوظ مقام میں رکھنا۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب احیاء الموات،فصل فی الشرب،ج06،ص438، دار الفکر ، بیروت )
فتاوی رضویہ میں ہے " پانی تین قسم ہیں (۱) مباح غیر مملوک (۲) مملوک غیر مباح (۳) مباح مملوک ۔۔۔۔۔ سوم سبیل یا سقایہ کا پانی کہ کسی نے خود بھرایا اپنے مال سے بھروایا بہرحال اس کی مِلک ہو اور اس نے لوگوں کیلئے اس کا استعمال مباح کردیا وہ بعد اباحت بھی اُسی کی مِلک رہتا ہے یہ پانی مملوک بھی ہے اور مباح بھی۔ ظاہر ہے کہ قسم اخیر کا پانی بالغ بھرے یا نابالغ کچھ تفاوت احکام نہ ہوگا کہ لینے والا اس کا مالک ہی نہیں ہوتا۔" (فتاوی رضویہ،ج 2،ص 494 ،495،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
(2)اورجس صورت میں پانی ڈائریکٹ زمین سےنکل کرلینے والے کےپاس پہنچتاہے، درمیان میں محفوظ ہونے والی صورت نہیں ہوتی توایسی صورت میں وہ پانی مباح غیرمملوک ہے ،اگرنابالغ بغیراجارے کے اسے بھرے تووہ اسی کی ملک ہوگا۔نابالغ سے والدین پانی بھروائیں تووہ اس پانی کواستعمال کرسکتے ہیں،لیکن ان کے علاوہ دوسرے افراد، جن کانابالغ اجیرنہیں،وہ نابالغ سے مباح غیرمملوک پانی نہیں بھرواسکتے اورنابالغ کےبھرے ہوئے مباح غیرمملوک پانی کواستعمال بھی نہیں کرسکتے، لہذااگریہ لوگ نابالغ کابھراہواپانی استعمال کرناچاہیں تواس کے لیے درج ذیل میں سے کوئی سابھی طریقہ اپناسکتے ہیں :
(الف)وہ یاتوولی سے یاولی کی اجازت سے خودنابالغ سےاس نابالغ کے پانی کواس کی مارکیٹ ویلیوکے مطابق خریدلیں ۔
(ب)اوریاپھرولی کے ذریعے یاولی کی اجازت سےڈائریکٹ نابالغ سے مخصوص وقت کااجارہ کرلیں(تمام افراد اجارہ کرلیں یافقط ایک عاقل بالغ فرداجارہ کرلے اوربقیہ کووہ اپنی طرف سے دے دے)(مثلادن کے دوبجے بھرواناہے توجتنے ٹائم میں بھرلیں اس کے لحاظ سے مثلا آدھاگھنٹہ یاپندرہ منٹ وغیرہ کے لیے اجارہ کرلیں کہ 2بجے سے 2:30،یاکہیں:2بجے سے 2:15تک تم ہمارے اجیرہو) اورپھراس وقت میں اس سے پانی بھروالیں تووہ اجارہ کرنے والوں کی ملک ہوجائے گا،لہذاوہ استعمال کرسکیں گے اوروہ اجازت دینے کے اہل ہوں (عاقل بالغ ہوں )توان کی اجازت سے دوسرے بھی استعمال کرسکیں گے ۔اس میں یہ خیال ضروررہے کہ اجرت وہ رکھیں جومارکیٹ میں اتنے وقت کی بنتی ہے۔
ردالمحتارمیں ہے
"ولو أمر صبيا أبوه أو أمه بإتيان الماء من الوادي أو الحوض في كوز، فجاء به لا يحل لأبويه أن يشربا من ذلك الماء إذا لم يكونا فقيرين، لأن الماء صار ملكه ولا يحل لهما الأكل من ماله بغير حاجة. وعن محمد: يحل لهما ولو غنيين للعرف والعادة حموي عن الدراية"
ترجمہ: اور اگر بچے کواس کے باپ یااس کی ماں نے وادی یاحوض سے کسی برتن میں پانی لانے کاحکم دیاپس وہ پانی لے آیاتوماں باپ اگرفقیرنہ ہوں توان کواس پانی سے پیناحلال نہیں کیونکہ پانی بچے کی ملک ہوچکاہے اوروالدین کے لیے بچے کی مملوکہ چیزکوبغیرحاجت کے کھاناحلال نہیں ہوتااورامام محمدعلیہ الرحمۃ سے مروی ہے کہ والدین اگرچہ غنی ہوں ان کے لیے بوجہ عرف وعادت حلال ہے ۔ یہ حموی میں درایہ کے حوالے سے ہے ۔ (ردالمحتار،کتاب احیاء الموات،فصل فی الشرب،ج06،ص439،دارالفکر،بیروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
"(۳۶) خاص پانی ہی بھرنے پر اُس کا اجیر بتعین وقت تھا اُسی وقت میں بھرا۔(۳۷) مستاجر نے پانی خاص معین کردیا تھا مثلاً اس حوض یا تالاب کا کل پانی۔اقول: اور یہ تعین نہ ہوگا کہ اس حوض یا کنویں سے دس مشکیں کہ دس مشک باقی سے جدا نہیں جس کی تعیین ہوسکے۔
(۳۸) اس نے باذن ولی یہ مزدوری کی اور کہتا ہے کہ یہ پانی مستاجر کیلئے بھرا۔(۳۹) اسی صورت میں اگرچہ زبان سے نہ کہا مگر اُس کے برتن میں بھرا۔(۴۰) نابالغ کسی کا مملوک ہے۔ ان نو صورتوں میں وہ نابالغ اُس پانی کا مالک ہی نہ ہوا پہلی تین صورتوں میں مالکِ آب کا ہے پھر ۳۵ سے ۳۹ تک پانچ صورتوں میں مستاجر کا۔۔۔۔یہ پانی جس جس کی ملک ہواُسے توجائزہی ہیں اُس کی اجازت سے ہرشخص کوجائزہیں جبکہ وہ عاقل بالغ مختاراجازت ہوبلکہ بحال انبساط اجازت لینے کی بھی حاجت نہیں۔"(فتاوی رضویہ،ج 2،ص 526،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اس کے بعدجوپانی نابالغ کی ملک ہوجاتے ہیں ،انہیں شمارکرنے کے بعدفرماتے ہیں :" ان آٹھ صورتوں میں وہ پانی اُس نابالغ کی مِلک ہے اور اُس میں غیر والدین کو تصرف مطلقاً حرام حقیقی بھائی اُس پانی سے نہ پی سکتا ہے نہ وضو کرسکتا ہے ہاں طہارت ہوجائے گی اور ناجائز تصرف کا گناہ اور اُتنے پانی کا اس پر تاوان رہے گا مگر یہ کہ اس کے ولی سے یا بچّہ ماذون(۱) ہو جس کے ولی نے اسے خرید فروخت کا اذن دیا ہے تو خود اس سے پُورے داموں خریدلے ورنہ(۲) مفت یا غبن فاحش کے ساتھ نابالغ کی مِلک دوسرے کو نہ خود وہ دے سکتا ہے نہ اُس کا ولی۔ رہے والدین وہ بحالت حاجت مطلقاً اور بے حاجت حسبِ روایت امام محمد اُن کو جائز ہے کہ اُس سے بھروائیں اور اپنے صرف میں لائیں باقی صورتوں میں اُن کو بھی روا نہیں مگر وہی بعد شراء۔" (فتاوی رضویہ،ج 2،ص 527،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم