نامحرم عورت سے میسج پر بات کرنے کا شرعی حکم

کسی نامحرم عورت سے میسج کے ذریعے بات کرنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کسی نامحرم عورت سے میسج کے ذریعے بات چیت کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

غیر محرم عورت کے ساتھ بلاوجہ شرعی بات چیت کرنے اور رابطہ رکھنے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا، خواہ آمنے سامنے بات چیت کی جائے، یا فون کال، یا میسج وغیرہ کے ذریعے، کسی بھی طرح سے غیر محرم عورت کے ساتھ بلاوجہ شرعی بات چیت کرنے اور رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ دینِ اسلام شرم و حیا کا درس دینے والا دین ہے، اور جیسے بدکاری سے روکتا ہے، ایسے ہی ہر اس کام سے بھی روکتا ہے، جو بدکاری کی طرف لے کر جاتا ہے، اور بلاوجہ نامحرم عورتوں سے بات چیت کرنا، رابطہ رکھنا اس طرف لے کر جاتا ہے۔

ہاں! اگر کوئی واقعی صحیح ضرورت پیش آجائے، جیسا کہ ڈاکٹر سے بات چیت کرنا یا ضرورت کے مطابق خریداری کے وقت بات کرنا وغیرہ تو اس کی بقدر ضرورت اجازت ہے لیکن اس میں بھی لوچ دار اور میلان والا ایسا انداز نہیں اپنائے گی کہ فتنے کا اندیشہ ہو۔

رد المحتار میں ہے

"نجيز الكلام مع النساء للأجانب و محاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، و لا نجيز لهنّ رفع أصواتهن و لا تمطيطها و لا تليینها و تقطيعها لما في ذلك من استمالة الرّجال إليهن وَ تحريك الشَهوَات منهم و من ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ"

ترجمہ: ہم وقتِ ضرورت عورتوں کے ساتھ اجنبی مردوں کی بات چیت کو جائز قراردیتے ہیں، البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں، لوچ دار، نرم اور ترنم والا انداز اپنائیں کیونکہ اس میں مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کو ابھارنا ہے، اور اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 97، مطبوعہ: کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3922

تاریخ اجراء: 15 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 12 جون 2025 ء