نعت خوانی کے مقابلہ میں بچوں کو انعام دینا کیسا؟

نعت خوانی کے مقابلہ میں بچوں کو انعام دینے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

بچوں میں نعت خوانی کا جو مقابلہ کراتے ہیں، اس میں بچوں کو نعت پڑھنے کی وجہ سے ہی انعام سے نوازاجاتا ہے، اور نعت خوانی کی اُجرت حرام ہے، تو یہ انعام کس چیز میں آئے گا؟ اور اس کا حکم بھی ارشاد فرمادیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نعت خوانی کا جو مقابلہ ہوتا ہے، اُس میں اگر یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ جیتنے والے کو کوئی اور شخص (جو اس مقابلے میں شریک نہیں، وہ) انعام دے، تو شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ نہ تو اجارہ ہے اور نہ ہی نعت پڑھنے کی اجرت ہے، بلکہ یہ انعام ہے، اسی لیے صرف جیتنے والوں کو دیا جاتا ہے، ہر نعت پڑھنے والے کو نہیں، لہٰذا اوپر بیان کردہ شرعی طریقہ کار کے مطابق ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن اگر مقابلے میں ایسا ہو کہ سب نعت پڑھنے والوں سے فیس لی جائے اور پھر تمام کی فیس سے جیتنے والوں کو انعام دیا جائے، تو یہ شرعاً ناجائز و گناہ ہے کہ یہ جوا ہے۔

جیتنے والے کو اگر ایسا شخص انعام دے جو مقابلہ میں شریک نہیں، تو یہ جائز ہے، جیسا کہ بدائع الصنائع، تحفۃ الفقہا، فتاوی ہندیہ اور شرح مختصر الطحاوی میں ہے،

واللفظ للآخر: ”قال محمد: وإن كان الذي يجعل السبق رجل سوى المتسابقين، فيقول: أيكما يسبق فله كذا، كنحو ما يصنع الأمراء، فلا بأس به‘‘

 یعنی امام محمد نے فرمایا: اگر انعام دینے والا مسابقہ کرنے والوں کے علاوہ ہو کہ وہ کہے جو بھی سبقت لے گیا، اس کے لیے انعام ہے، جیسا کہ اُمراء کرتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔(شرح مختصر الطحاوي، جلد 7، صفحہ 369، دار البشائر الاسلاميۃ)

جیتنے والے کو ملنے والے انعام کے حکم کے متعلق فتاوی محدثِ اعظم میں ہے ”سب ٹیموں سے پیسے جمع کرکے ان کو کھلایا جائے اور ان جمع کردہ پیسوں میں سے کامیاب شدہ ٹیم کو انعام دیا جائے، تو یہ جوا ہے، حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی آدمی اپنے پاس سے یا ایک ہی ٹیم اپنی طرف سے کامیاب شُدہ ٹیم کو انعام دے، تو یہ شرعاً جائز ہے، جب کہ کوئی مانع شرعی نہ ہو۔“ (فتاوی محدث اعظم، صفحہ 139، رضا اکیڈمی، فیصل آباد)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4180

تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1447 ھ/03ستمبر 2520 ء