
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آٹھ دوست ہیں۔صبح فجر کی جماعت میں جو غیر حاضر ہو ، اس کو 500 روپیہ جرمانہ کرتے ہیں۔اور جب کچھ پیسے اکٹھے ہو جائیں ، تو پھر ان کو سب مل کر کھاتے ہیں ، ایسا کرنا شرعا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایسا کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں، کیونکہ شریعت میں مالی جرمانہ جائز نہیں۔
نماز کی پابندی قائم رکھنے کے لیے آپ سب یوں کرسکتے ہیں کہ ایک گروپ بنا لیا جائے اور صبح اٹھ کر وہاں میسج کردیا جائے اور جس کا میسج نہ آئے، اسے فون کال کرکے اٹھا دیا جائے یا یوں بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد میں جاتے وقت ایک دوسرے کو ساتھ لیتے جائیں، جو نہیں اٹھا ہوگا، ایسے اس کی بھی شرکت ہوجائے گی۔
علامہ شامی فرماتے ہیں:
”والحاصل ان المذھب عدم التعزیر باخذ المال“
ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ مذہب میں تعزیر باخذ المال (یعنی مالی جرمانہ لینا) جائز نہیں ہے۔ (رد المحتار، جلد 4، صفحہ 62، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا، جس کاخلاصہ یوں ہے کہ برادری میں اگرکوئی خلاف شرع کام کرے تواس سے کلام وطعام اورہرطرح کادنیوی تعلق ختم کردیتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی اس کا ہم نوا یا ہم خیال ہو، اس سے بھی ترک کردیتے ہیں جب تک کہ مخصوص تاوان بطورضمانت ادانہ کردے۔
اس کے جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے فرمایا: "جوامورتادیبی اوپرمذکورہوئے سب جائزہیں، مگرمالی جرمانہ لیناحرام۔" (فتاوی رضویہ، جلد5،صفحہ116،115، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ’’تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ درمختار میں ہے:
’’لا باخذ مال فی المذھب ‘‘
(یعنی)مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رو سے جائز نہیں ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد5،صفحہ111، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3960
تاریخ اجراء:28ذوالحجۃالحرام1446ھ/25جون2025ء