کیا ناولز پڑھنا جائز ہے؟

ناولز پڑھنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا ناول پڑھنا جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ناولز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسے ناولز پڑھنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

انسانی طبیعت میں فِطری طور پر قصے، کہانیوں سے دلچسپی پائی جاتی ہے لیکن اس فطری شوق کی تکمیل کے لیے بدقسمتی سے رُومانی ناوِلوں، ڈائجسٹوں اور مختلف قسم کے میگزینز وغیرہ کا سہارا لیا جاتا ہے، جن میں عشق و محبت کے گندے شہوت انگیز اَفسانے، لڑکے اور لڑکیوں میں دوستیاں کرنے، انہیں نبھانے اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے انداز، جاسوسی اور ایکشن کے نام پر جھوٹے اور فرضی قِصّے، حیا سوز و غیر اَخلاقی کہانیاں اور نہ معلوم کیا کچھ ہوتا ہے۔

آج کے نوجوان مرد و عورت میں پائی جانے والی بے راہ روی اور آزاد خیالی کی ایک بڑی وجہ یہی ناولز اور میگزینز ہیں، جن کی بدولت غیر محسوس انداز میں معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں سر اٹھا رہی ہیں، جن عورتوں کو سورہ یوسف کی تفسیر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس میں ایک عورت کے مکر کا بیان ہے، آج کل وہ ہی عورتیں اس طرح کے ناولز پڑھ کر آزاد خیالی کا شکار ہو رہی ہیں، لہذا اس طرح کےعِشْقِیَہ و فِسْقِیَہ ناولز پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔

ہاں! ایسے اسلامی ناولز جن میں مستند اسلامی تاریخ کے واقعات کو عشقیہ، فسقیہ اسلوب سے جدا رکھ کر ناول کے قالب میں بیان کیا جائے، اور دیگر شرعی ممنوعات بھی اس کا حصہ نہ ہوں، تو ایسے ناولز کا مطالعہ شرعاً جائز ہے، جیسا کہ علامہ ارشد القادری رحمہ اللہ کی مایہ ناز تصنیف ”زلف و زنجیر“ اس کی عمدہ مثال ہے، اسی طرح وہ ناولز جو اگرچہ فرضی ہوتے ہیں لیکن ان سے مقصود نصیحت واصلاح ہوتی ہے،ان کا پڑھنا بھی جائز ہے جیسے مثنوی رومی وغیرہ۔

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)

ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (پارہ 18، سورۃ النور، آیت 19)

اس آیت کے تحت صراط الجنان میں ہے "اشاعتِ فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:۔۔۔ (5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔ (6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اور ڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔" (صراط الجنان، پارہ 18، سورۃ النور، جلد 6، صفحہ 602، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

کلام کا مضمون اچھا ہو تو وہ کلام بھی اچھا ہوتا ہے اور برا ہو تو کلام بھی برا، چنانچہ مسند ابی یعلی میں حدیث پاک منقول ہے

عن عائشة قالت:سئل رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم عن الشعر. فقال: «هو كلام. فحسنه حسن و قبيحه قبيح

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شعر کے متعلق پوچھا گیا،تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ شعر بھی ایک کلام ہے،ان میں سے اچھا، اچھا ہے اور برا، برا ہے۔(مسند ابو یعلی، جلد 08، صفحہ 200، حدیث: 4760، مطبوعہ: دار المأمون للتراث، دمشق)

انسان فطر ی طور پر قصص و حکایات سے دلچسپی رکھتا ہے، علامہ ارشد القادری زلف و زنجیر کتاب تحریر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ان تاریخی کہانیوں کی ترتیب و اشاعت سے میرا مقصود صرف اتنا ہے کہ موجودہ دور کے مسلم نو جوانوں کا ذہن حیا سوز گندے اور شہوت انگیز افسانوں سے ہٹا کر اسے پاکیزہ خیالات اور صحت مند رحجانات کا مرکز بنایا جائے اور غیر شعوری طور پر ان کے دلوں کو ایمان کی ان لطیف لذتوں سے آشنا کیا جائے جن کی معنوی کشش کے بل پر آسانی کے ساتھ بہکی ہوئی زندگیوں کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر قصص و حکایات سے دلچسپی رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اس فطری خواہش سے جنگ کرنے کی بجائے اُسے صحیح رخ پر لگا دینا وقت کا مفید ترین اقدام ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ ایک ہی بات جو براہ راست درس و پیغام کے انداز میں کہی گئی عام طبیعتیں اس سے مانوس نہیں ہو سکیں لیکن وہی بات جب کہانی کے سانچے میں ڈھل گئی تو حلق کے نیچے اترنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔" (زلف و زنجیر مع لالہ زار، صفحہ 04، مطبوعہ: شبیر برادرز، لاھور)

عشقیہ فسقیہ اور حیاء سوز ناولز کا مطالعہ بالعموم سب کے لئے اور بالخصوص خواتین کے لئے زیادہ خطرناک ہے،اس بارے میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "اور دوستو! تین چیزوں سے اپنی لڑکیوں اوربیویوں کو بہت بچاؤ، ایک ناول۔۔۔یہ لڑکیوں کے لیے زہر قاتل ہیں۔" (ملتقطا من اسلامی زندگی، صفحہ 112، مطبوعہ: المکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اولاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نہ ہرگز ہرگز بہار دانش، مینا بازار، مثنوی غنیمت وغیرہا کتب عشقیہ و غزلیات فسقیہ دیکھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورہ یوسف شریف کا ترجمہ نہ پڑھایاجائے کہ اس میں مکر زنان کا ذکر فرمایا ہے، پھر بچوں کو خرافات شاعرانہ میں ڈالنا کب بجا ہوسکتا ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 24 ، صفحہ 455، مطبوعہ: رضافاؤنڈیشن، لاہور)

ناول خواہ فرضی ہوتاہم اگر اس سے مقصود نصیحت واصلاح ہو جب بھی اس کا پڑھنا جائز ہے۔بہار شریعت میں ہے ”عجیب و غریب قصے کہانی تفریح کے طور پر سننا جائز ہے، جبکہ ان کا جھوٹا ہونا یقینی نہ ہو بلکہ جو یقینا جھوٹ ہوں ان کو بھی سنا جاسکتا ہے، جبکہ بطورِ ضرب مثل ہوں یا ان سے نصیحت مقصود ہو جیسا کہ مثنوی شریف وغیرہ میں بہت سے فرضی قصے وعظ وپند کے لیے درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح جانوروں اور کنکر پتھر وغیرہ کی باتیں فرضی طور پر بیان کرنا یا سننا بھی جائز ہے۔" (بہار شریعت، جلد 03، حصہ 16، صفحہ 653، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

کتاب "کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" میں سیدی ومرشدی امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس کو ایمان کی حفاظت عزیزہو اُسے چاہئے کہ وہ مُزاحِیہ چُٹکُلوں کی کیسٹوں، فلموں، ڈِراموں، گانوں باجوں رومانی اور جاسوسی ناوِلوں، ڈائجسٹوں، عِشقیہ وفِسقیہ افسانوں اور اخباروں کی غیر شَرعی تحریروں وغیرہا کے قریب بھی نہ بھٹکے۔ یاد رکھئے! اسلامی نظرِیّات اور شَرعی احکامات سے ٹکرانے والی تقریرات سننا اور تحریرات پڑھنا حرام او رجہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 500 ،511، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3993

تاریخ اجراء: 11 محرم الحرام 1447ھ / 07 جولائی 2025ء