
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
صفر میں مہندی لگانا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مہندی لگانے کے حوالے سےصفر المظفر کے مہینے کا بھی وہی حکم ہے، جو باقی مہینوں کا ہےیعنی جس طرح شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے دوسرے مہینوں میں مہندی لگا سکتے ہیں، اسی طرح صفرکے مہینے میں بھی لگا سکتے ہیں، غرض کسی مہینے کو مہندی کے جواز و عدم جواز میں کوئی دخل نہیں ہے۔
البتہ! یہ ذہن نشین رہے کہ صفر المظفر کو منحوس و بے برکتی والا مہینہ سمجھ کر اپنے کسی جائز کام سے رک جانا، یہ بد شگونی لینا ہے اور اسلام میں بد شگونی لینے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، اور اس فعل کو جہالت اور یہودیوں کا طریقہ کہا گیا ہے۔ نیز اس طرح کا اعتقاد رکھنا محض باطل و مردود ہے، جس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو منحوس جاننے سے منع فرمادیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتاہے
﴿قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ- قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ﴾
ترجمہ کنز الایمان: بولے ہم نے برا شگون لیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سےفرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہےبلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو۔ (القرآن، سورۃ النمل، پارہ 19، آیت: 47)
مذکورہ آیت کےتحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ﴾
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالٰی اسےتوکّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 211، 212، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ و لا صفر
ترجمہ: بیماری کے متعدی ہونے، بد شگونی، الو کی نحوست اور صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 135، حدیث: 5757، مطبوعہ مصر)
حضور پرنور صلی اللہ علیہ و سلم نے بد فالی لینے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
لیس منا من تطیر
ترجمہ: جس نے بد شگونی لی وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)۔ (المعجم الکبیر، جلد 18، صفحہ 162، حدیث: 355، مطبوعہ: قاھرۃ)
بہارِ شریعت میں ہے ”ماہِ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ حدیث میں فرمایاکہ "صفر کوئی چیز نہیں۔" یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے۔۔۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں، بلکہ حدیث کا یہ ارشاد
لاصفر
یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ ایسی تمام خرافات کو رد کرتا ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 659، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4123
تاریخ اجراء: 18 صفر المظفر 1447ھ / 13 اگست 2025ء