
سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے نفع حاصل کرنا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Kan-14478 |
تاریخ اجراء:08صفر المظفر1441ھ/08اکتوبر2019ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے نفع حاصل کرنا کیسا ہے ؟ سائل:ریاض حسین (گلستان ِ جوہر ،کراچی) |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
بینک میں ایساسودی اکاؤنٹ کھلوانا کہ جس میں رقم جمع کروانے پر مشروط منافع ملےجائز نہیں اور اس سے حاصل ہونے والا نفع سود ہے، جو ناجائز و حرام ہے، کیونکہ اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہےاور قرض پر مشروط نفع حاصل کرنا سود ہے۔ سود کےبارے میں اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ترجمہ کنز العرفان :اللہ نے خریدو فروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا ۔‘‘ (سورۃالبقر ہ ،آیت275 ) مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے :’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٰکل الربوا وموکلہ و کاتبہ و شاھدیہ قال وھم سواء‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود دینے والے،اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پرلعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ تمام لوگ گناہ میں برابر ہیں ۔ (الصحیح لمسلم ،جلد 2،ص27 ،مطبوعہ کراچی) علامہ علاؤالدین المتقی ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا ، روا ہ الحارث بن ابی اسامۃ عن امیر المؤمنین علی کر م اللہ تعالی وجھہ الکریم‘‘ یعنی ہر وہ قرض جو منفعت لائے ،وہ سود ہے ،اسے حارث ابن ابی اسامہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ (کنز العمال، کتاب الدین و السلم ،حدیث 15512،ج 6،ص99،مطبوعہ بیروت) علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمۃ در مختار میں نقل فرماتے ہیں :’’کل قرض جر نفعا حرام‘‘ یعنی ہر وہ قرض جو نفع لائے حرام ہے ۔اسی کے تحت ردالمحتار میں ہے :’’ ای اذاکان مشروطا‘‘یعنی یہ نفع تب حرام ہے، جب اس کی شرط لگائی گئی ہو ۔ ( ر د المحتارعلی الدر المختار،ج7،ص 395،مطبوعہ بیروت ) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہو ا(اگر زید عمرو کو دس روپے کا نوٹ قرض دےاور اس وقت یا کچھ دنوں کے بعد عمر و بارہ روپے نقد ادا کرے، تو اس پر سود کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں اور زیدوعمر و گنہگارہوئے یانہیں؟ )اس کے جواب میں فرماتے ہیں :’’اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی، تو بے شک سود و حرام قطعی و گنا ہ ِ کبیر ہ ہے ،ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج17،ص278،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |