
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا شرعی مسائل کے حل کے لیے ChatGPT ایپ کا استعمال کرنا صحیح ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرآن و حدیث کی تفہیم و تشریح، دینی احکام اور شرعی مسائل کے حل کے لیے مستند علمائے کرام و مفتیان کرام سے رجوع کرنا ہی ضروری ہے، جبکہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مصنوعی ذہانت کے خودکار نظام پراعتمادکرنے کی اجازت نہیں ہے کہ یہ غیرمعتبرذرائع ہیں۔ اور ان کے غیرمعتبر ہونےکاخود ان کوبھی اعتراف ہے،اسی لیے ChatGPT اور دیگر AI پلیٹ فارمز خود یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم شرعی فتویٰ دینے کے اہل نہیں، ہمارے جوابات حتمی یا معتبر دینی حکم کے طور پر نہ لیے جائیں۔ حتمی فیصلہ اور فتوی کے لیے ماہر مفتی صاحب سے رابطہ کریں۔
نیز تجربات اور مشاہدات سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ چیٹ جی پی ٹی(ChatGPT) اور اس جیسے دیگر اے آئی ماڈلز میں ہر طرح کا مواد (رطب و یابس) ایک ہی پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے، جہاں حق و باطل، صحیح و غلط، معتبر و غیر معتبر کے درمیان کوئی امتیازنہیں ۔ ان کے ڈیٹا میں گمراہ فرقوں مثلاً قادیانی، جبریہ ،قدریہ اور باطنیہ وغیرہ اور اسلام دشمن قوتوں (یہود و نصاریٰ، ملحدین وغیرہ) کا تیار کردہ مواد بھی شامل ہے، جو اپنی باطل اور مسموم تفاسیر و تاویلات کو علمی لبادہ پہنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے پھیلاتے ہیں۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ جب کوئی شخص ان ایپس سے قرآنِ کریم کی تفسیر یا حدیثِ مبارکہ کی شرح وغیرہ پوچھے تو یہ ان گمراہوں کی غلط اور تحریف شدہ آرا کو اصل تفسیروغیرہ کے طور پر پیش کر دیں، اور یوں سادہ لوح افراد گمراہی وغیرہ کے گڑھے میں جا گریں۔
نیز شرعی مسائل کے صحیح حل کاانحصار مسئلے کی مکمل نوعیت وتفصیل، حالاتِ حاضرہ، زمان و مکان، فقہی مسالک (حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی) کے فرق اور معتبر دینی ماخذ سے رجوع پر ہوتا ہے، جو ایک مستند عالمِ دین یا مفتی ہی کرسکتا ہے،جبکہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر AI ایپس صرف پہلے سے موجود ڈیٹا پر مبنی جوابات دے سکتے ہیں، شرعی مسائل کی گہرائی، تفصیلات، اور معتبر دینی حوالے سمیت تمام پہلو سمجھ کر شرعی مسائل کا حل دینے سے قاصر ہیں۔ لہذا شرعی مسائل کے حل کے لیے چیٹ جی پی ٹی یا اس جیسے دیگر اے آئی پلیٹ فارمز پر اعتماد کرنے کی ہرگزاجازت نہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دین سیکھنا انتہائی نازک معاملہ ہے، اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ علم ،دین ہے، غور سے دیکھو تم کس سے حاصل کر رہے ہو؟
قرآن پاک میں ہے
﴿فَسْــٴَلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔ (القرآن، سورة النحل، پارہ 14، آیت: 43)
صراط الجنان میں ہے ”اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ (صراط الجنان، جلد 05، صفحہ 320، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
صحیح مسلم میں امام محمد ابن سیرین علیہ الرحمہ کا فرمان ہے:
ان ھذا العلم دین،فانظروا عمن تاخذون دینکم
یعنی: بے شک یہ علم تمہارا دین ہے، تو غور سے دیکھو تم کس سے اپنا دین حاصل کررہے ہو۔ (صحیح مسلم، جلد 01، صفحہ 14، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس کے تحت فرماتے ہیں: ”علم شریعت علم دین جب بنے گا جب سکھانے والا استاد عالم دین ہوگا، بے دین عالم سے حاصل کیا ہوا علم بےدینی ہی دے گا، آج لوگ بے دینوں سے تفسیروحدیث پڑھ کربے دین ہورہے ہیں، فرمان کے ساتھ فیضان ضروری ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 01، صفحہ 228، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
سنن ابی داؤد میں ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من أفتي بغير علم كان إثمه على من أفتاه
یعنی: حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔ (سنن ابی داؤد، جلد 03، صفحہ 321، حدیث: 3657، المكتبة العصرية، بيروت)
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جو شخص عُلَماء کو چھوڑ کر جاہِلوں سے مسئلہ پوچھے اور وہ غَلَط مسئلہ بتائیں تو (بتانے والا تو گنہگار ہے ہی) پوچھنے والا بھی گناہ گار ہوگا کہ یہ عالِم کو چھوڑ کر اس کے پاس کیوں گیا، نہ یہ پوچھتا نہ وہ غَلَط بتاتا۔۔۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کو غَلَط فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔۔۔ خلاصہ یہ ہے کہ بے علم کو مسئلۂ شرعی بیان کرنا سخت جُرم ہے۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد 01، صفحہ 212، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4127
تاریخ اجراء: 21 صفر المظفر 1447ھ / 16 اگست 2025ء