قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا کیسا؟

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کا حکم؟

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7506

تاریخ اجراء:15       ربیع الاول 1446 ھ/ 20ستمبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر سکتے ہیں یا نہیں؟  نیز بیت المقدس پاکستان سے شمال کی جانب ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ (پاکستان میں) باتھ روم میں کموڈ اور WC انڈین سیٹ  نصب  (Fitting) کرتے وقت اس کا رخ (Front) قبلہ سمت (West) کی جانب نہیں کر سکتے، جبکہ پشت(Back) کر سکتے ہیں اور شمال (North) کی جانب بھی بطور ادب رخ (Front) نہیں کرسکتے، کیونکہ اس سمت (direction) میں قبلہ اول اور بغداد شریف ہے، جبکہ پشت (back) کر سکتے ہیں۔آپ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں کہ  لوگوں کی  بات کس حد تک دُرست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنا یا پیٹھ کرنا،مکروہِ تحریمی وناجائز و گناہ ہے،اسی وجہ سے اگر کسی جگہ پر کموڈ یا  WC انڈین سیٹ  کا رخ قبلہ کی جانب ہے یا قضائے حاجت کے وقت پیٹھ قبلہ کی جانب ہوتی ہے تو وہاں استنجاء کرنے والوں پرلازم ہےکہ اپنارُخ  بدل کر بیٹھیں، قضائے حاجت کے وقت منہ یا پیٹھ قبلہ کی جانب کرنا ہر گز جائز نہیں۔

   نیز  بیت المقدس پاکستان و ہندوستان  سے شمال کی جانب نہیں ہے، بلکہ مغرب کی جانب ہے، اگرچہ تھوڑا شمال کی طرف جھکے ہوئے ہے،لہذا قضائے حاجت کے وقت شمال کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

   قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا منع ہے، چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”إذا أتیتم الغائط  فلا تستقبلوا القبلۃ و لاتستدبروھا“ جب تم قضائے حاجت کے لئے جاؤ، توقبلہ کی جانب نہ تو منہ کرو، نہ پیٹھ۔(صحیح بخاری، ج 1، ص 57، مطبوعہ  کراچی)

   حضرت  سیّدناابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”قدمنا الشام فوجدنا مراحیض بنیت قبل القبلۃ فننحرف و نستغفر اللہ تعالی“۔ ہم  شام آئے، وہاں استنجاء خانوں کارُخ قبلہ کی جانب پایا،تو ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ سے اپنامنہ پھیر لیتےاور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے۔(صحیح بخاری، ج 1، ص 57، مطبوعہ کراچی)

   تنویرالابصارو  درمختار میں ہے: ”کرہ تحریما(استقبال قبلۃ و استدبارھا، ل)أجل (بول أو غائط)“ ترجمہ: بول وبرازکے وقت قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔(تنویرالابصارمع الدر المختار و رد المحتار، ج 1، ص 608، مطبوعہ پشاور)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ایک مسجد کےمتعلق کئے گئے سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”پیشاب کے وقت  منہ نہ قبلہ  کو ہونا، جائز، نہ پشت، جو لوگ ایسا کریں خطا کار ہیں، مہتممینِ مسجد یا اہلِ محلہ پر واجب ہےکہ اُن کا رُخ جنوباً یا شمالاً کریں اور جب تک ایسا نہ ہو پیشاب کرنے والوں پر لازم ہے کہ رُخ بدل کربیٹھیں۔“(فتاوی رضویہ، ج 4، ص 601، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   بیت المقدس یہاں سے شمال کی جانب نہیں ہے، بلکہ مغرب کی جانب ہے، اگرچہ تھوڑا شمال کی طرف جھکے ہوئے ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: نہ بیت المقدس یہاں سے ٹھیک شمال کو ہے، نہ بغداد شریف، بلکہ دونوں یہاں سے جانب مغرب ہی ہیں، اگرچہ شمال کو قدرے جھُکے ہوئے اور شریعت پر زیادت کی اجازت نہیں۔(فتاوی رضویہ، ج 4، ص 608، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   نوٹ:یہ خیال رہے کہ شرعی مسائل میں سنی سنائی باتوں کو آگے بیان کرنا درست نہیں، جب تک کہ  وہ کسی مستند عالم دین سے سنا یا کسی مستند عالم کی کتاب میں پڑھا نہ ہو،نیز  لوگوں کو زبانی مسائل بتانا اوروعظ کرنا علماء ہی کو جائز ہے، غیر عالم اپنی طرف سے نہ ہی وعظ کرسکتاہے اور نہ ہی مسائل بیان کرسکتا ہے،  البتہ غیر عالم اگر کسی سنی صحیح العقیدہ عالم کی کتاب سے دیکھ کر صرف وہی بیان کرتا ہے جو اس میں لکھا ہے، اپنی طرف سے کچھ بیان نہیں کرتا تو یہ جائز ہے، جبکہ وہ غیر عالم فاسق مثلاً داڑھی منڈا وغیرہ نہ ہوکہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقۃ وعظ اس عالم کا ہے، جس کی کتاب پڑھی جا رہی ہے۔

   چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”منبر مسند نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ہے، جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے، بلکہ عالم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں، جبکہ وہ جاہل فاسق مثلاً داڑھی منڈا وغیرہ نہ ہوکہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقۃ وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں، بلکہ جاہل خود کچھ بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج 23، ص 409، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم