
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حیض والی عورت کے لیے طلاق کی عدت تین حیض ہے تو کیا تیسرے حیض میں جس دن حیض آیا، اس دن عدت ختم ہوگی یا جب تیسرا حیض ختم ہوجائے تب عدت مکمل ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حیض والی کی طلاق کی عدت تیسرا حیض ختم ہونے پر ہی ختم ہوگی نہ کہ تیسرا حیض شروع ہونےپر۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ)
ترجمہ کنز العرفان: اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ (القرآن، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت: 228)
در مختار میں ہے
(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالاولى لتعرف براءة الرحم، و الثانية لحرمۃ النکاح و الثالثة لفضيلة الحرية
ترجمہ:تین مکمل حیض کا گزارنا،اس لیے کہ حیض میں تقسیم نہیں ہوتی۔ پہلا حیض اس لئےہے تاکہ رحم صاف ہونا معلوم ہو اور دوسرا نکاح کی حرمت کی وجہ سےاور تیسرا آزاد عورت کی فضیلت کےلئے۔ (الدر المختار، باب العدۃ، صفحہ 245، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
الجوہرۃ النیرہ میں ہے
لان العدۃ ھی مضی الزمان فاذا مضت المدۃ انقضت العدۃ
ترجمہ: اس لئے کہ عدت زمانہ کے گزرنے کا نام ہے تو جب مدت گزر گئی تو عدت بھی ختم ہوگئی۔ (الجوہرۃ النیرۃ، جلد 2، کتاب العدۃ، صفحہ 78، المطبعۃ الخیریۃ)
فتاوی رضویہ میں ہے "طلاق کی عدت تین حیض کامل ہیں یعنی بعد طلاق کے ایک نیا حیض آئے، پھر دوسرا، پھر تیسرا، جب یہ تیسرا ختم ہوگا اس وقت عدت سے نکلے گی۔" (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 303، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4058
تاریخ اجراء: 29 محرم الحرام 1447ھ / 25 جولائی 2025ء