عدت میں خوشبودار صابن استعمال کرنا کیسا؟

عدت میں بدبو ختم کرنے کے لیے خوشبودار صابن استعمال کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت عدت کے دوران خوشبو استعمال نہیں کرسکتی، تو کیا قضائے حاجت کے بعد ہاتھوں سے ناپسندیدہ بُو کو ختم کرنے کے لئے خوشبو والا صابن استعمال کرسکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عام حالات میں معتدہ (عدت گزارنےوا لی عورت) خوشبودار صابن استعمال نہ کرے، یونہی جسم سے ناپسندیدہ بُو کے ازالے کے لئے قضائے حاجت کے بعد یا اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی بغیر خوشبو والا صابن (جو جلد کی رنگت نہ نکھارتا ہو) استعمال کرے، مارکیٹ میں ایسے بہت سے صابن موجود ہیں جو خوشبودار نہیں ہوتے، لیکن جسم سے ناپسندیدہ بو کو زائل کردیتے ہیں، لہذ اان کے ہوتے ہوئےخوشبودار صابن کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی، ہاں اگر بغیرخوشبو والے صابن سے بو کو زائل کرنا ممکن نہ ہو یا انتہائی مشکل ہو یا فی الوقت بغیر خوشبو والا صابن موجود نہ ہو اور ہاتھوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہو، تو اب جسم سے ناپسندیدہ بُو کے ازالے کے لئے خوشبودار صابن (جو جلد کی رنگت نہ نکھارتا ہو) کے استعمال کی اجازت ہوگی کیونکہ مقصود جسم کو مہکانا نہیں، بلکہ ناپسندیدہ بو كا ازالہ ہے، لہذا یہ زینت میں داخل نہیں، اس کی نظیر معتدہ کے لئے حیض سے فراغت کی صورت میں جسم سے ناپسندیدہ بو ختم کرنے کے لئے خوشبو مَلنے کا مسئلہ ہےکہ حدیث پاک میں اس کی اجازت دی گئی، اور علمائے دین نے اس کی علت یہی بیان فرمائی کہ یہاں مقصود جسم سے ناپسندیدہ بو کا ازالہ ہے، جسم کو مہکانا نہیں۔

دوران عدت خوشبو کے استعمال کی ممانعت کے حوالے سے صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

لا تحد امراۃ علی میت فوق ثلاث الا علی زوج اربعۃ اشھر و عشرا و لا تلبس ثوبا مصبوغا الا ثوب عصب و لا تکتحل و لاتمس طیبا

ترجمہ: عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے، سوائے اپنے شوہر کے کہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے اور (دورانِ عدت) رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے، سوائے عصب (نامی رنگ) سے رنگے ہوئے کپڑے (کیونکہ یہ رنگ زینت کے لیے استعمال نہیں ہوتا) اور نہ سرمہ لگائے اورنہ ہی خوشبو لگائے۔ (صحیح البخاری، ج 07، ص 60،دار طوق النجاۃ، صحیح مسلم، ج 02، ص 1127، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

وفات اور طلاق بائن کی عدت میں عورت کے لئے خوشبو لگانے کی ممانعت کے حوالے سےدر مختار مع رد المحتار میں ہے،

و عبارۃ الدر بین القوسین: (تحد) تحد ای وجوبا (مکلفۃ مسلمۃ اذا کانت معتدۃ بت او موت بترك الزينة و الطيب)

مسلمان مکلّف عورت، جب طلاقِ بائن (یعنی تین طلاقوں والی یا ایک یا دو بائن طلاقوں والی) یا موت کی عدت والی ہو، تو اس پر زینت اور خوشبو ترک کرکے سوگ کرنا واجب ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 5، ص 530 - 531، دار الفکر بیروت)

عدت میں جو چیزیں مباح ہیں، اُن میں بغیر خوشبو والے صابن کو ذکر کیا گیا، جس کا واضح مفہوم مخالف یہی نکلتا ہے کہ بلا ضرورت خوشبودار صابن کا استعمال مباح نہیں، موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

اتفق أئمة المذاهب الأربعة على أنه يباح للمحدة في عدة وفاتها الأشياء التالية(ومنھا) والاغتسال بالصابون غير المطيب

مذاہب اربعہ کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ عدت وفات میں آئندہ ذکر کی جانے والی چیزیں مباح ہیں (اور ان میں سے ایک) بغیر خوشبو والے صابن سے غسل کرنا بھی ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، ج 02، ص 109، دار السلاسل – الكويت)

معتدہ حائضہ کو حیض سے فراغت کے بعد خوشبودار لکڑیاں مَلنے کی اجازت کے متعلق صحیح بخاری میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے:

حدثتني أم عطية، نهى النبي صلى اللہ عليه و سلم و لا تمس طيبا، إلا أدنى طهرها إذا طهرت نبذة من قسط و أظفار

مجھے ام عطیہ نے حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے عدت والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سےمنع فرمایا مگر جب وہ حیض سے پاک ہو، تو طہر کی ابتداء میں تھوڑی سی قسط و ٖظفر (مشہور خوشبودار لکڑیاں) لگا سکتی ہے۔ (صحیح البخاری، ج 07، ص 60، رقم: 5343،دار طوق النجاۃ)

کیونکہ اب مقصود ناپسندیدہ بو کو ختم کرنا ہے جسم کو خوشبودار بنانا نہیں، اسی علت کی نشاہدہی کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

فيه الترخيص للحادة إذا اغتسلت من الحيض لازالة الرائحة الكريهة، و قال النووي و ليس القسط و الظفرة مقصودا للتطييب، و إنما رخص فيه لازالة الرائحة

مذکورہ حدیث پاک میں سوگ یعنی عدت کرنے والی عورت کو حیض سے فراغت کے بعد غسل کے وقت قسط اور اظفار لگانے کی رخصت دی گئی ہے، امام نووی فرماتے ہیں: قسط اور اظفار سے مقصود خوشبو نہیں، یہاں اجازت ناپسندیدہ بو زائل کرنے کے لئے ہے۔ (عمدۃ القاری، ج 03، ص 609، مطبوعہ کوئٹہ)

مرأۃ المناجیح میں ہے: ”قسط اور اظفار مشہور خوشبو دار لکڑیاں ہیں اظفار کی لکڑی سیاہ رنگ کی ہوتی ہے کٹے ہوئے ناخن کے مشابہ اس لیے اسے اظفار کہتے ہیں یعنی عدت والی عورت جب حیض سے فارغ ہو تو یہ خوشبو شرمگاہ پر مل سکتی ہے کہ اس سے صرف بدبو کا دفع کرنا مقصود ہے نہ کہ جسم کا مہکانا۔“ (مرأۃ المناجیح، ج 05، ص 152، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

حاشیۃ الشلبی اور فتح القدیر میں ہے،

و اللفظ لفتح: رخص فيه في الغسل من الحيض في تطييب المحل و إزالة كراهته

حیض سے فراغت کے بعد ان کے استعمال کی رخصت مخصوص مقام کی صفائی اور اس سے ناپسندیدہ بو کے ازالے کے لئے ہے۔ (حاشیۃ الشلبی، ج 03، ص 35،دار الکتاب الاسلامی، فتح القدیر، ج 04، ص 337،دار الفکر)

اورمقصود میں تبدیلی سے حکم میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

الطيب كل شيء له رائحة مستلذة و يعده العقلاء طيبا كذا في السراج الوهاج قال أصحابنا الأشياء التي تستعمل في البدن على ثلاثة أنواع ... نوع ليس بطيب بنفسه ولكنه أصل للطيب يستعمل على وجه التطيب و يستعمل على وجه الدواء كالزيت و يعتبر فيه الاستعمال فإن استعمل استعمال الأدهان في البدن يعطى له حكم الطيب، و إن استعمل في مأكول أو شقاق رجل لا يعطى له حكم الطيب كذا في البدائع

ہر وہ چیز جس میں خوشنما خوشبو ہو اور عقلاء اسے خوشبو شمار کرتے ہوں، اسے طیب کہتے ہیں، اسی طرح سراج الوھاج میں ہے، ہمارے اصحاب نے فرمایا: وہ چیزیں جو بدن پر استعمال کی جاتی ہیں، تین طرح کی ہوتی ہیں۔۔۔ ایک قسم وہ جو فی نفسہ خوشبو تو نہیں، ليكن خوشبو کے لئے اصل ہے، اسے خوشبو اور دوا دونوں طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ زیتون تو اس میں استعمال کا اعتبار ہوگا، اگر اسے بدن پر تیل کے طورپر استعمال کیا جائے، تو خوشبو کا حکم ہوگا، اور اگر کھانے کی چیزوں میں یا پیر کے شگاف میں استعمال کیا جائے تو اس کے لئے خوشبو والا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح بدائع میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج 01، ص 240، دار الفکر)

بیوٹی سوپ جلد کی رنگت کو نکھارتا ہے، اور ایسی اشیاء کا استعمال دورانِ عدت ممنوع ہے، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حین توفی ابوسلمۃ و قد جعلت علی عینی صبرا فقال ماھذا یا ام سلمۃ؟ فقلت انما ھو صبر یا رسول اللہ لیس فیہ طیب قال انہ یشب الوجہ فلا تجعلیہ الا باللیل و تنزعینہ بالنھار

جب حضرت ابو سلمہ فوت ہوئے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے اپنی آنکھوں پرایلوا لگا رکھا تھا، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلمہ! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و الہ و سلم)! یہ ایلوا ہے، جس میں خوشبو نہیں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا: یہ چہرے کو نکھارتا ہے، پس اسے نہ لگاؤ، مگر (ضرورتاً لگانا پڑے) تو رات کو لگاؤ اور دن کو اتار لو۔ (سنن ابی داؤد، ج 2، ص 292، الرقم 2305، مطبوعہ بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0551

تاریخ اجراء: 15 شوال المکرم 1446ھ / 14 اپریل 2025ء