
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک عورت کے بچہ پیدا ہوا، ابھی وہ چلے میں ہے، بچے کے پیدا ہونے کے دس دن بعد شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی، تو اب بیوی کے لیے عدت کا کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس عورت کو جب سےشوہر نے طلاق دی، اُسی وقت سے ہی اس کی عدت شروع ہو گئی۔ اور اس کی عدت بھی تین ماہواریاں (حیض) ہی ہیں، یعنی جب نفاس (پیدائش کے بعد آنے والا خون)ختم ہوگا، اس کے بعد پاکی کے دن آئیں گےاور پھریکے بعد دیگرے تین ماہواریاں ختم ہوں گی، تو اس عورت کی عدت مکمل ہو گی۔
نوٹ: نفاس کی حالت میں طلاق دینے سے اگرچہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، لیکن جس طرح ماہواری کی حالت میں طلاق دینا ناجائز و گناہ ہے، اسی طرح نفاس کی حالت میں بھی طلاق دینا ناجائز و گناہ ہے، لہذا اس سے توبہ کرناشوہرپرلازم ہے۔
حالتِ نفاس میں طلاق کی صورت میں عدت سےمتعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و صورة العدة: إذا قال لامرأته إذا ولدت فأنت طالق فولدت ثم قالت: مضت عدتي فإنها تحتاج إلى ثلاث حيض ما خلا النفاس
ترجمہ: اس میں عدت کی صورت یوں ہوگی کہ جب کسی نے اپنی بیوی کو کہا: "جب تیرے ہاں بچے کی ولادت ہو، تو تجھے طلاق" پس اس عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر اس نے کہا کہ میری عدت گزر گئی ہے، تو وہ نفاس کے علاوہ تین حیض گزرنے کی محتاج ہوگی۔ (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 546، مطبوعہ کوئٹہ)
جوہرہ نیرہ میں ہے
و کذا الطلاق فی حالة الحيض مكروه لما فيه من تطويل العدة على المرأة، و كذا فی النفاس أيضاً
ترجمہ: اسی طرح حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہ (تحریمی) ہے، کیوں کہ اس سے عورت کی عدت لمبی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح نفاس کی حالت میں طلاق دینا بھی (مکروہ تحریمی ہے)۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد 2، صفحہ 31، المطبعۃ الخیریۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4114
تاریخ اجراء: 16 صفر المظفر 1447ھ / 11 اگست 2025ء