لاعلمی میں عدت کے احکام پرعمل نہ کیا تو کیا حکم ہے؟

لاعلمی کی وجہ سے عدت کے احکامات پرعمل نہ کیا تو اب کیا کرے؟

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کسی عورت نے عدت نہیں کی، ایک عرصے کے بعد علم میں آیا تو کیا وہ اب عدت کر سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طلاق یا شوہر کی وفات ہونے کے ساتھ ہی فوراً عدت کا آغاز ہو جاتا ہے، خواہ طلاق یا وفات کا علم نہ ہو اور خواہ عدت کے احکام کا بھی علم نہ ہو، اور پھر عدت کا عرصہ مکمل ہونے پر عدت مکمل بھی ہو جاتی ہے، خواہ عدت کے احکام پر عمل نہ کیا ہو۔

البتہ !علم نہ ہونے سے آپ کی مراد اگر یہ ہے کہ طلاق یا وفات کا تو علم تھا مگر عدت کے وجوبی احکام کے متعلق علم نہیں تھا کہ کون کون سی پابندیوں پر عمل کرنا ضروری ہے، اس لئے ان پر عمل نہیں کیا، تو یاد رکھیں ایسی صورت میں ضروری علم حاصل نہ کرنے اور ان احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوئی، ان سب سے توبہ کرنا لازم ہے، اور اگر مراد یہ ہو کہ عدت کے پورے پیریڈ میں طلاق یا وفات کا علم نہیں ہوا، اس کے بعد پتا چلا تو اس صورت میں گناہ گار نہیں ہوئی مگر عدت بہر صورت مقرر شدہ وقت گزر جانے پر خود بخود ختم ہوگئی ہے۔

 نوٹ: عدت کا عرصہ گزرنے سے مراد یہ ہے کہ طلاق یا شوہر کی وفات کے وقت عورت اگر حاملہ تھی تو بچہ پیدا ہو گیا، اور اگر حاملہ نہیں تھی تو طلاق کی عدت کی صورت میں بعدِ طلاق حیض والی کو تین حیض گزر گئے، اور اگرعورت نابالغہ ہے یا بالغہ توہے لیکن عمرکے حساب سے یا انزال کے ذریعے بالغہ ہوئی، اسے حیض آنا شروع نہیں ہوا، یا اتنی زیادہ عمر ہوگئی کہ عمر کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا (جس کی حد کم ازکم 55 سال ہے) تو تین ماہ گزر گئے۔ اور اگر عدت وفات تھی تو چار ماہ دس دن گزر گئے تو اب عدت کا عرصہ مکمل ہونے پر عدت پوری ہو گئی۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے

”(ومبدأ العدة بعد الطلاق و) بعد (الموت) على الفور (وتنقضي العدة وإن جهلت) المرأة (بهما) أي بالطلاق والموت لأنها أجل فلا يشترط العلم بمضيه“

ترجمہ: عدت کی ابتدا طلاق کے بعد اور موت کے بعد فوراً ہو جاتی ہے اور عدت گزر بھی ہو جاتی ہے اگرچہ عورت کو ان دونوں یعنی طلاق یا موت میں سے کسی کا علم نہ ہو، کیونکہ یہ ایک مقررہ مدت ہے، اس کے گزرنے کے لیے علم ہونا شرط نہیں۔ (الدر المختار، صفحہ247، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے

”وعلى هذا يبنى وقت وجوب العدة أنها تجب من وقت وجود سبب الوجوب من الطلاق، والوفاة، وغير ذلك حتى لو بلغ المرأة طلاق زوجها أو موته فعليها العدة من يوم طلق أو مات عند عامة العلماء“

ترجمہ: اور اسی پر عدّت کے وجوب کا وقت مبنی ہے، یعنی عدّت اسی وقت واجب ہوتی ہے جب اس کے وجوب کا سبب (یعنی طلاق یا وفات وغیرہ) واقع ہو جائے۔ حتی کہ اگر عورت کو (بعد میں) شوہر کی طلاق یا وفات کی خبر پہنچے، تو عامہ علما کے نزدیک اس پر عدّت اسی دن سے لازم ہوگی جس دن شوہر نے طلاق دی تھی یا فوت ہوا تھا۔ (كتاب الطلاق، جلد3، صفحہ190، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

تنویر الابصار میں ہے

”و فی من لم تحض لصغر او کبر او بلغت بالسن ولم تحض ثلاثۃ اشھر“

 ترجمہ: اور جو عورت حیض والی نہ ہو چھوٹی عمر کی وجہ سے یا بڑی عمر کی وجہ سے یا جو عمر کے حساب سے بالغ ہو گئی اور اسے ابھی حیض نہیں آیا تو ان کے حق میں عدتِ طلاق تین مہینے ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، جلد5، صفحہ186تا189، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”ہمارے سب ائمہ کرام رضوان تعالٰی علیہم اجمعین کے اتفاق سے ناجائز و گناہ واقع ہوا، ایسی ناواقفی مانع گناہ نہیں کہ مسائل سے ناواقف رہنا خود گناہ ہے، اس لئے حدیث میں آیا:

ذنب العالم ذنب واحد وذنب الجاھل ذنبان قیل ولم یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم العالم یعذب علٰی رکوبہ الذنب والجاھل یعذب علٰی رکوبہ الذنب وترک التعلم۔ رواہ فی مسند الفردوس عن ابن عباس رضی ﷲتعالٰی عنہما۔

یعنی: رسول صلی تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا عالم کا ایک گناہ ایک گناہ اور جاہل کا گناہ دو گناہ، کسی نے عرض کی: یا رسول ! کس لئے؟ فرمایا: عالم پر وبال اسی کا ہے کہ گناہ کیوں کیا، اور جاہل پر ایک عذاب گناہ کا اور دوسرا نہ سیکھنے کا۔ اسے دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت ابن عباس رضی تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ (فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ277، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4318

تاریخ اجراء: 17ربیع الثانی1447 ھ/11اکتوبر2025 ء