حج یا عمرے کے سفر میں شوہر انتقال کرجائے تو عورت کے لیے حکم؟

حج یا عمرے کے سفر میں شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت کے لیے کیا حکم ہوگا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-561

تاریخ اجراء:08 ربيع الثانی1446ھ/12اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر  میاں بیوی حج یا  عمرے کی  ادائیگی کیلئے جارہے ہوں اور  اس دوران شوہر کا انتقال ہوجائے  تو عورت کی عدت شروع ہوجائے گی، اب اس صورت میں وہ    آگے کا  سفر  کیسے جاری رکھے  اور کیا  وہ   بغیر شوہر یا محرم  کے  اپنے    حج  و عمرہ   کے  ارکان  ادا کرسکتی ہے؟ نیز   اگر مکہ  مکرمہ پہنچ جائے تو کیا   اپنی عدت کے دوران مدینے شریف   جاسکےگی یا مکہ شریف میں رہ کر ہی  اپنے ہوٹل میں ویزے کے  دن پورے کر کے اپنے شہر واپس آئے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر میاں بیوی   حج یا عمرے کیلئے   سفر پر روانہ  نہ  ہوئے ہوں، بس جانے کی تیاری ہو اور  اس دوران  شوہر کا انتقال ہوجائے،  تو   حج یا عمرے کی ادائیگی کیلئے نہیں جاسکتی، اُسے حکم ہے کہ  سفر کا ارادہ ترک کرکے  اپنی   عدت پوری کرے۔ البتہ اگر  میاں بیوی  حج یا  عمرے کے سفر   کیلئے   روانہ ہوچکے ہوں اور اس    دوران  شوہر  فوت ہوجائے، تو عورت کی عدت تو بہر صورت   شروع ہوجائے گی، مگر اب   واپس گھر  آنے یانہ آنے اور آگے    سفر جاری رکھنے میں   کچھ  تفصیل ہے:

   (۱) اگر تو عورت  سفر کرتے ہوئے   ابھی   صرف  اس جگہ تک ہی پہنچی ہو کہ جہاں سے  اپنے  گھر واپسی    کا    سفر، شرعی مسافت(یعنی 92 کلو میٹر دور ) نہ ہو   تو   حکم  یہ ہے کہ عورت   واپس   اپنے گھر  لوٹ آئے اور  عدت کے ایام پورے کرے      اور آگے  کا  سفر جاری  نہ رکھے۔

   (۲)اور اگر سفر طے کرکے عورت   ایسی  جگہ پہنچ  چکی ہو کہ جہاں سے   مکہ مکرمہ کا سفر،شرعی مسافت(92 کلو میٹر) پر  نہ  ہو جیسے عورت جدہ پہنچ  چکی ہو اور وہاں   شوہر کا انتقال ہوجائے، تو اس صورت میں  عورت  اپنا   سفر جاری  رکھے گی۔

   (۳) اگر  ایسی جگہ پہنچ کر شوہر کا  انتقال ہوجائے کہ  جہاں سے عورت کیلئے    واپسی گھر کا  راستہ اور    مکہ مکرمہ کا  راستہ  دونوں  ہی  شرعی مسافت پر ہوں  تو ایسی صورت میں جبکہ دونوں جگہیں شرعی مسافت پر ہوں   تو اصل حکم کے مطابق    عورت   بغیر محرم کے نہ واپس  آسکتی ہے  اور  نہ آگے  کا سفر کرسکتی ہے، مگر ظاہر ہے کہ اس میں عورت کیلئے سخت دشواری ہے، لہذا  ضرورت کے پیش نظر عورت کو  اجازت ہوگی کہ   وہ اس صورت میں گروپ  کی نیک  پارسا   عورتوں کے ساتھ  مکہ مکرمہ کی طرف  سفر جاری  رکھے، اور ان سب صورتوں میں  مکہ مکرمہ پہنچ  کر  گروپ  کی  نیک عورتوں  کے ساتھ مل کر حج  یا  عمرے کے ارکان کو  ادا کرے، اور  اس کے بعد جب تک   مکہ مکرمہ میں رہے گی  وہیں اپنے ہوٹل کے کمرے میں  دن پورے کرے گی، اور   بلا شرعی ضرورت کے اپنے ہوٹل کے کمرے سے  باہر   نہیں جاسکتی ، کیونکہ   ہوٹل میں اس  کا  قیام  عدت کے طور پر ہوگا، اور    عدت والی عورت کو  بلا ضرورتِ شرعی  اپنے  جائے مقام سے نکلنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ پھر اگر  مکہ مکرمہ سے شیڈول کے مطابق مدینہ شریف   گروپ کی روانگی  ہو تو  اگر وہ عورت کسی طرح   چند قابل اعتماد  عورتوں کے ساتھ مل کر  مکہ مکرمہ  میں قیام کرسکتی ہو تو  وہیں  رہے گی، ورنہ   بامر ِمجبوری   گروپ کی عورتوں کے ساتھ  مدینہ شریف کیلئے چلی جائے  لیکن مدینہ شریف پہنچ کر بھی   اپنے  ہوٹل کے کمرے میں ہی  رہے گی، ہوٹل  سے  باہر مسجد نبوی  شریف  اور  دیگر مقد س مقامات کی زیارات  پر نہیں جاسکتی۔  جب اس عورت کی    مکہ مکرمہ یا  مدینہ منورہ سے وطن  واپسی  ہو تواس کیلئے  بغیر محرم کے واپس آنا جائز نہیں ہوگا، لہذا اگر  محرم کا  وہاں آنا ممکن ہو تو   اُسے  بلائے  اور  اس کے ساتھ واپس وطن کو سفر کرے، ورنہ  اگر بلانا، ممکن نہ ہو یا وہ نہ آسکتا ہو  تو  اب مجبوری کی صورت میں گرو پ کی نیک پارسا عورتوں کے ساتھ ہی  واپس چلی آئے  اور وطن پہنچ کر  پہلے جس جگہ عدت گزارنا آسان ہو  وہاں   اپنی  عدت کے بقیہ ایام پورے  کرے، ورنہ  پھر شوہر کے گھر میں جاکر   عدت گزارے۔

     دورانِ عدت عورت کو اپنے گھرسے باہرنکلنے کی ممانعت سے  متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا تُخْرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ‘‘ ترجمہ کنز العرفان: تم عورتوں کو (ان کی عدت میں) ان کے گھروں سے نہ نکالواورنہ وہ خود نکلیں۔(پارہ28، سورة الطلاق،آیت:1)

   اگر دوران سفر شوہر کا انتقال ہوجائے اور واپسی کا سفر ،شرعی مسافت پر نہ ہو،تو عورت واپس لوٹ آئے گی اور اگر واپسی شرعی مسافت  ہو اور مقصد کی طرف شرعی مسافت نہ ہو تو سفر جاری رکھے گی ،چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(أبانها أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت‘‘ ترجمہ: عورت کو خاوند نے طلاق بائن دے دی یا وہ فوت ہوگیا، اگر چہ شہر میں ،اور  عورت اورا س کے وطن کے درمیان مدت سفر نہ ہو تو  عورت لوٹ آئے اور اگر اس کے اور وطن کے درمیان  مدت سفر ہو او ر عورت کے اور اس کے مقصد  کے درمیان  مدت سفر سے  کم  ہو تو  عورت  سفرجاری رکھے۔(تنویر الابصار مع در مختار، جلد 5، صفحہ 232، دار المعرفۃ، بیروت)

   اگر دونوں طرف شرعی مسافت ہو تو ضرورت کے پیش نظر نیک پارسا عورتوں کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی اجازت ہوگی، جیسا کہ  سیدی  اعلی حضرت علیہ رحمۃ الرحمن  نے بے شوہر ومحرم والی عورت کو اس عورت کے جیسی فرمایا ہے جس کا شوہر مکہ معظمہ کے راستے میں فوت ہو جائے، اور دونوں طرف مسافت شرعی ہونے کی صورت میں اسے آگے سفر جاری رکھنے اور  حج کرنے   کی اجازت دی ہے ،چنانچہ فتاوی رضویہ میں     ارشاد فرمایا :’’اور اگر شوہر ومحرم نہیں رکھتی تو اگر اتنی دور پہنچ گئی کہ مکہ معظمہ تک مدت سفر نہیں مثلا جدہ پہنچ گئی تو اب چلی جائے اور واپس نہ ہو کہ واپسی میں سفر بلا محرم ہے اور وہ حرام ہے، ’’وکانت کمن أبانھا زوجھا أو مات عنھا ولو في مصر ولیس بینھا وبین مصرھا مدۃ سفر رجعت و لو بین مصرھا مدۃ وبین مقصدھا أقل مضت“ (ترجمہ: مثلا اس عورت کو خاوند نے طلاق بائن دے دی یا وہ فوت ہوگیا اگر چہ  وہ شہر تھا اور اس عورت اورا س کے وطن کے درمیان مدت سفر نہیں تو وہ عورت لوٹ آئے اور اگر اس کے وطن کے لیے مدت سفر ہو او رمقصد کے لیے مدت سفر کم ہو تو سفرجاری رکھے)،پھر بعد حج مکہ معظمہ میں اقامت کرے بلا محرم گھر کو واپس آنا بلکہ مدینہ طیبہ کی حاضری ناممکن ہے۔۔۔(اور) اگر دونوں طرف مدت سفر ہے تو بلا سخت تر ہے اور جانا یا آنا کوئی بھی بے گناہ نہیں ہوسکتا، مگربہ حصول محرم یا تحصیل شوہر۔۔۔ اگر یہ بھی ناممکن ہو تو سب طرف سے دروازے بند ہیں پوری مضطرہ ہے، اگر ثقہ معتمدہ عورتیں واپسی کے لیے ملیں تو مذہب امام شافعی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر عمل کر کے ان کے ساتھ واپس آئے، اور جانے کے لیے ملیں تو انکے ساتھ جائے انھیں کے ساتھ واپس آئے کہ تقلید غیر عند الضرورۃ بلا شبہہ جائز  ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 708،707، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاوی حج و عمرہ میں  ایک سوال کے جواب میں ہے: ’’اگر دوران حج یا حج سے قبل کسی عورت کا شوہر قضا ء الہی سے انتقال کر جائے تو اس عورت کا کوئی محرم موجود ہو تو اس کے ساتھ حج  پورا کرے۔ اگر محرم نہ ہو تو گروپ کی ایسی عورتوں کے ساتھ حج پورا کرے جو خداترس اور دیندار ہوں اور مقررہ مدت کے بعد گھر پہنچ کر عدت کے بقیہ ایام گھر پر پورے کرے۔‘‘(فتاوی حج و عمرہ، حصہ 2، صفحہ 153- 154، جمعیت اشاعت اهلسنت)

   مفتی نظام الدین رضوی صاحب لکھتے ہیں:’’(جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے) وہ حج کرے، بعد حج مکہ معظمہ میں عدت گزارے  لیکن اس زمانے میں حکومت سعودیہ کے سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل کی وجہ سے وہاں پورے زمانہ عدت تک قیام سخت دشوار ہے اور حرج وضرر کا باعث بھی، اس لیے اسے اجازت ہے کہ اپنے ملک میں آکر عدت گزارے۔ اگر یہ ممکن ہو کہ اپنے ملک میں جہاں پہلے پہنچی وہاں عدت گزار سکے یا اس سے قریب ترین آبادی میں تو وہیں عدت گزارے اور یہ بھی دشوار ہو تو ناچار ہے، شوہر کے گھر پہنچ کر عدت کے ایام پورے کرے۔“(آپ کے مسائل، صفحہ92-93، ملتقطا، مکتبہ برھان ملت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم