
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کو طلاق کی عدت شوہر کے گھر میں گزارنے کا حکم ہے۔ یہ بات تو میں سمجھتا ہوں، مجھے اس کی حکمت جاننی ہے کہ رجعی طلاق میں تو رجوع کی امید ہونے کی وجہ سے اسے شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہوتا ہے، یہ حکمت تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بائن طلاق میں جب نکاح ہی ختم ہوگیا، اسی طرح مغلظہ طلاق میں شوہر کے گھر عدت گزارنے کا حکم دینے میں کیا حکمت ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورت پر طلاق یا وفات کی عدت اپنے شوہر کے گھر گزارنا واجب ہے،بلا اجازتِ شرعی شوہر کا گھر چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر یا کسی اور جگہ عدت نہیں گزار سکتی۔ رہی بات شوہر کے گھر عدت گزارنےمیں حکمت کیاہے؟ اول تو یہ حکمِ باری تعالیٰ ہےاور بطورمسلمان ہم پراللہ تعالیٰ کے ہرحکم کو دل و جان سے قبول کرنا لازم ہے، اس لیےکہ اسلام کا معنی ہی سر تسلیم خم کرنا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے احکام میں ہزار ہا حکمتیں ہیں، ہر حکم کی حکمت کوہم اپنی ناقص عقل اور ناقص علم کے ذریعے سمجھ جائیں یہ ضروری نہیں، لہٰذا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے، بہر حال اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ البتہ سوال میں مذکور معاملے میں عدت کی ایک حکمت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے نسل انسانی اور لوگوں کے حسب و نسب کو تحفظ دینے اور اسے شکوک و شبہات سے بچانے کا بہت اہتمام فرمایا ہے، نیز باپ پر اپنی اولاد کی کثیر ذمہ داریاں رکھی ہیں چنانچہ اسی حکمت کے پیشِ نظر عورت کو تین طلاق کے بعد بھی شوہر کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا گیا کہ اگر طلاق دینے والے شوہر سے عورت کو حمل ہو تو اس بچے کا نسب، اس شخص سے بحفاظت ثابت ہو اور اس شخص پر بچے کی ذمہ داریاں پوری طرح عائد ہوسکیں اور وہ شخص اس سے کسی صورت انکار نہ کرسکے جبکہ اگر عورت کو اس شخص سے حمل نہیں ہے تو عدت کے گزرنے تک عورت اسی کے پاس رہے تاکہ جب عدت سے فارغ ہوکر کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو سابقہ شوہر کا معاملہ بالکل واضح ہوجائے کہ اس کی طرف سے عورت کو حمل نہیں تھا لہٰذا آئندہ کسی بھی بچے کی پیدائش کی ذمہ داریاں اس شخص پر نہیں ہیں اور آئندہ جو بچہ پیدا ہو تو اس کے نسب کا اس کی صحیح جگہ سے ثبوت ممکن ہو۔
عورت پر طلاق یا وفات کی عدت اپنے شوہر کے گھر گزارنا واجب ہے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ﴾
ترجمہ کنز الایمان: عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں۔ (القرآن،پارہ 28، سورۃ الطلاق، آیت 1)
اس آیت کے تحت مفتیِ اہلِ سنت، شیخ القرآن ابو صالح مفتی محمد قاسم قادری اطال اللہ ظلہ علیَّ لکھتے ہیں: ”عورت کو عدت شوہر کے گھر پوری کرنی لازم ہے۔ شوہر کو جائز نہیں کہ طلاق یافتہ کو عدت کے اَیّام میں گھر سے نکالے اور نہ ان عورتوں کو وہاں سے خود نکلنا جائز ہے کیونکہ یہ رہائش محض شوہر کا حق نہیں ہے جو ا س کی رضامندی سے ساقط ہو جائے بلکہ یہ شریعت کا حق بھی ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، جلد 10، صفحہ 57، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
کنزالدقائق،ہدایہ اور فتح القدیر میں ہے:
و النظم للآخر: وعلى المعتدة أن تعتد في المنزل الذي يضاف إليها بالسكنى حال وقوع الفرقة والموت لقوله تعالى ﴿لا تخرجوهن من بيوتهن﴾
ترجمہ:اور معتدہ پر لازم ہے کہ وہ اسی گھر میں عدت گزارے جو طلاق یا موت کے وقت اس کی سکونت کی جگہ ہو، اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کی وجہ سے کہ انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو۔(فتح القدیر، جلد 4، صفحہ 344، مطبوعہ دار الفكر، لبنان)
احکامِ الہی عزوجل کی حکمتیں جاننے سے متعلق ایک مسلمان کیسا طرزِ عمل اختیار کرے؟ اس سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”احکامِ الہی میں چون و چرا نہیں کرتے، الاسلام گردن نہادن نہ زبان بجرأت کشادن (اسلام، سر تسلیم خم کرنا ہے، نہ کہ دلیری کے ساتھ لب کشائی کرنا) بہت احکام الہیہ تعبدی ہوتے ہیں اور جو معقول المعنی ہیں، ان کی حکمتیں بھی من و تو کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔۔ مسلمان کی شان یہ ہے:
﴿سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ﴾
ترجمہ کنز الایمان:ہم نے سنا اور مانا، تیری معافی ہو، اے رب ہمارے ! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 13، صفحہ 297، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)
نسب کے ثبوت اوراس میں غیر کا شبہ اور اختلاط پیدا نہ ہونے کے سبب شوہر کے گھر عدت کا حکم دیا گیا، جیسا کہ بدائع الصنائع اور المحیط البرہانی میں ہے:
و النظم للآخر: و المطلقة ثلاثا أو رجعيا أو بائنا وسائر وجوه الفرق التي توجب العدة من النكاح الصحيح و الفاسد سواء، يعني: في حق حرمة الخروج عن بيتها في العدة، لأن اللہ تعالى نهى المطلقة عن الخروج مطلقا، و المعنى صيانة الماء عن الاختلاط، و النسب من الاشتباه و ذلك لا يتفاوت
یعنی تین طلاق والی، یا رجعی طلاق والی، یا بائنہ طلاق والی اور اسی طرح نکاحِ صحیح یا فاسد سے پیدا ہونے والی فرقت کی تمام وہ صورتیں جن میں عدت لازم آتی ہےسب برابر ہیں،یعنی عدت کے دوران عورت کے اپنے گھر سے نکلنے کی حرمت کے بارے میں سب کاحکم ایک ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورت کو مطلق طور پر گھر سے نکلنے سے منع فرمایا ہے، اور اس کی علت یہ ہے کہ شوہر کے پانی(یعنی نطفہ) کو اختلاط سے بچایا جائے اور نسب کو اشتباہ سے محفوظ رکھا جائے اور یہ علت ہر صورت میں یکساں ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد 3، صفحہ 467، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:
لا يجوز خروج المعتدة من الطلاق الثلاث أو البائن ليلا أو نهارا، لعموم النهي و مسيس الحاجة إلى تحصين الماء
یعنی طلاقِ ثلاثہ یا طلاقِ بائن کی عدت گزارنے والی عورت کا رات یا دن میں (شوہر کے گھر سے) نکلنا جائز نہیں، کیونکہ ایک تو عام ممانعت وارد ہے اور دوسرا نطفہ (یعنی نسب) کی حفاظت کی ضرورت لاحق ہے۔(الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ، جلد 29، صفحہ 351، مطبوعہ کویت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0063
تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر 1447 ھ/ 23اگست 2025ء