خریداری کی نیت سے محفوظ رقم اور زکوٰۃ کی شرعی حیثیت

 

خریدی گئی چیز کی قیمت ادا کرنے کے لیے رکھی رقم پر زکوۃ کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اپنا گھر فروخت کر دیا ہے اور اس کی مکمل قیمت بھی وصول کر لی ہےاور ہم نے نیا گھر بھی لے لیا ہے لیکن ابھی صرف بیعانہ کی رقم دی ہے اور پوری رقم 15 اپریل جو کہ گھر کا قبضہ ملنےکا د ن ہے اس وقت دیں گے اور ابھی تک رجسٹری بھی نہیں کروائی ہے۔  سوال یہ ہے کہ جو رقم ہمارے پاس ابھی موجود ہے جسے ہم نے گھر کی مد میں 15 اپریل کو ادا کرنا ہے کیا اس پر زکوۃ ہوگی ؟ جبکہ بقول والد صاحب کے ان کا زکوۃ کا سال 27 رمضان   کو مکمل ہوتا ہے۔  براہ کرم اس کا جواب ارشاد فرمادیں ۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں گھر بیچنے کے عوض آپ کو جو رقم کیش کی صورت میں ملی تھی،سال مکمل ہونے سے پہلےہی اس  کیش کے عوض آپ  نیا گھر خرید چکے ہیں اگرچہ ابھی اس گھر پر قبضہ نہیں ملا لیکن خریدوفروخت ہوچکی ہے  جس کی وجہ سے  رقم کی ادائیگی  بھی آپ پر لازم ہوچکی ہے جو کہ ایک طرح کا دین ہےاور زکوۃ کے متعلق اصول یہ ہے کہ کسی شخص پر زکوۃ کا سال مکمل ہونے کےدن ، دین بھی موجود ہو تو اس دین کی رقم پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی بلکہ اس رقم کو منہا کر نے کے بعد اگر اتنا مال نامی بچے جو نصاب کو پہنچتا ہو تو  اس بقیہ مال  پر زکوۃ لازم ہوگی لیکن اگر  دین کو منہا کرنے کے بعد اتنا مال ہی نہ بچے جو نصاب کو پہنچتا ہو تو پھراصلا  زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں جتنی رقم گھر کی مد میں ادا کرنی ہے اگر سال پورا ہونے پر وہ موجود ہو تو اس رقم پر  زکوۃ لازم نہیں ہوگی،  اس کے علاوہ اگر مال نامی موجود ہو جونصاب کو پہنچتا ہو تو اس پر زکوۃ لازم ہوگی۔

شیخ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

”فارغ عن دین لہ مطالب من جھۃ العباد“

یعنی: اس مال پر زکوۃ واجب ہوتی ہے جو ایسے دین سے فارغ ہو جس کا لوگوں کی طرف سے مطالبہ ہو ۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار ،جلد 3،صفحہ 210،دارلامعرفہ بیروت)

اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

” (فارغ عن دین)۔۔۔۔اطلقہ فشمل الدین العارض ۔۔۔وھذا اذا کان الدین فی ذمتہ قبل وجوب الزکاۃ“

یعنی :یہاں دین کو مطلق رکھا گیا ہے تو جو دین درمیان سال میں عارض ہوا وہ شامل ہے اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ دین زکوۃ واجب ہونے سے پہلے کا ہو ۔ (ردالمحتار ،جلد 3،صفحہ 210،دارالمعرفہ بیروت)

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :

” (فلا زکوۃ علی ۔۔۔مدیون للعبد بقدر دینہ )فیزکی الزائد ان بلغ نصابا “

یعنی : جس پر بندوں کا قرض ہو تو اس قرض پر زکوۃنہیں ہاں اگر قرض سےزائد نصاب کو پہنچ جائے تو  اس کی زکوۃ ادا کرے  گا۔(تنویرالابصار مع الدر المختار ،جلد 3،صفحہ 215،دارالمعرفہ بیروت)

سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :ایسا دین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحاجت اصلیہ قراردے کر کالعدم ٹھہرےگا اور باقی پر زکوۃ واجب ہوگی اگر بقدر نصاب ہو ۔(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ 126،رضا فاؤنڈیشن لاہور )

صدر الشریہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :نصاب کا مالک ہے مگر اس پر دین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکوۃ واجب نہیں خواہ وہ دین بندہ کا ہو جیسے قرض ،زرثمن ، کسی چیز کا تاوان یا اللہ عزوجل کا دین ہو جیسے زکوۃ ۔(بہار شریعت ،جلد1،صفحہ 878،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-509

تاریخ اجراء:05رمضان  1446ھ/06مارچ 2025ء