میچ ہارنے پر کھانا کھلانے کا شرعی حکم

 

میچ ہارنے پر کھانا کھلانا بھی جوا ہے

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں گلی محلوں میں اتوار کے دن اکثر لڑکے کرکٹ میچ کھیلتے ہیں اور اس میں مختلف شرطیں لگاتے ہیں ۔ بعض یہ شرط لگاتے ہیں کہ جو ٹیم ہارے گی وہ جیتنے والی ٹیم  کو فلاں ریسٹورنٹ سے کھانا کھلائے گی، یا جیتنے والی ٹیم کو اتنی رقم دے گی ، کیا اس طرح کی شرط لگا کر کرکٹ کھیلنا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت  میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے ، یہ جوئے کی صورت ہے ۔ایسی شرط کہ جس میں ایک طرف  کا مال خطر پر لگایا جائے کہ شرط جیت گیا تو سامنے والے کا مال مل جائے گا ورنہ  اس کا مال چلا جائے گا  ، یہ طریقہ کھلا  جوا  ہے۔

جوا کبیرہ گناہ  اور جہنم میں لے جانے والا کام  ہے ، ان سب پر لازم ہے کہ فی الفور اپنے اس گناہ سے توبہ کریں اور اب تک جس جس سے اس باطل طریقے پر مال حرام حاصل کیا ہے انہیں واپس کریں، اگر وہ نہ رہے ہوں تو ان کے ورثاء کو واپس کریں۔

جوئےسے متعلق قرآن کریم میں ہے:

’’اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘

ترجمہ کنز الایمان: شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔( القرآن الکریم، پارہ 07، المائدۃ، آیت 90)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

”ان اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام “

یعنی پاک نے شراب ، جوا اور کوبہ (ڈھول) کو حرام کیا ہے اور نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔(السنن الکبری للبیهقی،جلد 10،صفحہ 360،دار الکتب العلمیہ  ، بیروت)

جوئےسے متعلق ردالمحتار میں ہے:

” القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى ، وسمى القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص “

یعنی لفظ قمار ، قمر سے بنا ہے جو گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ قمار کوقمار اس لئے کہتے ہیں کہ جُواکھیلنے والوں میں سے ہرآدمی کے اندریہ امکان رہتاہے کہ اِس کامال اس کے مقابل کومل جائےیا اُس کا مال اسے مل جائےاوریہ نص کی رُوسے حرام ہے۔ (ردالمحتار، جلد9، صفحہ 665، مطبوعہ کوئٹہ)

جوئے کے ذریعے حاصل کئے گئے مال سے خلاصی کی صورت بیان کرتے ہوئے سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”جس قدر مال جوئے میں کمایا،  محض حرام ہے۔۔۔اور اس سے براءت کی یہی صورت ہے کہ جس جس سے جتنا جتنا مال جیتا ہے اسے واپس دے،یا جیسے بنے اسے راضی کرکے معاف کرالے، وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو واپس دے، یا ان میں جو عاقل بالغ ہوں ان کا حصہ ان کی رضامندی سے معاف کرالے، باقیوں کا حصہ ضرور انھیں دے کہ اس کی معافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا پتہ کسی طرح نہ چلے، نہ ان کا، نہ ان کے ورثہ کا ، ان سے جس قدر جیتا تھا ان کی نیت سے خیرات کردے، اگرچہ اپنے محتاج بہن، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔۔۔غرض جہاں جہاں جس قدر یاد ہو سکے کہ اتنامال فلاں سے ہار جیت میں زیادہ پڑاتھا اتنا تو انھیں یا ان کے وارثوں کو دے، یہ نہ ہو تو ان کی نیت سے تصدق کرے، اورزیادہ پڑنے کے یہ معنی کہ مثلا ایک شخص سے دس بار جوا کھیلا، کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اس کے جیتنے کی مقدار مثلا سو روپے کو پہنچی، اور یہ سب دفعہ کے ملا کر سوا سو جیتا، تو سو سو برابر ہوگئے، پچیس اس کے دینے رہے، اتنے ہی اسے واپس دے، وعلی ہذا القیاس ۔ اورجہاں یاد نہ آئے کہ کون کون لوگ تھےاور کتنا لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ تخمینہ لگائے کہ اس تمام مدت میں کس قدر مال جوئے سے کمایا ہوگا، اتنا مالکوں کی نیت سے خیرات کردے، عاقبت یونہی پاک ہوگی، واللہ تعالٰی اعلم“(فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ653، رضا فاؤنڈیشن، لاھور،ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0269

تاریخ اجراء: 18ذوالحجۃ الحرام 1445ھ /25جون 2024ء