
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو افراد سبزی کے کام میں شرکت کرنا چاہ رہے ہیں، دونوں رقم ملائیں گے ایک پارٹنر 30 فیصد اور دوسرا 70 فیصد اور جو پارٹنر 30 فیصد رقم ملائے گا وہی سارا کام کرے گا ۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ نفع و نقصان برابربرابر رکھیں، کیا ہمارا اس طرح کرنا درست ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں شرکت جائزہے ، اورکام کرنے والے شریک کو تیس فیصدسرمایہ ہونے کے باوجودکل نفع کا پچاس فیصد دینے میں شرعاحرج نہیں کیوں کہ وہ کام کر رہا ہے لھذا دوسرے شریک کی رضا مندی سے اپنے راس المال کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کر سکتا ہے۔ البتہ تیس فیصد سرمایہ لگانے والے شریک پر 50فیصد نقصان کی شرط لگانا درست نہیں، لیکن اس شرط سے شرکت فاسد نہیں ہوگی، بلکہ شرط خود ہی باطل ہوجائیگی اور نقصان ہونے کی صورت میں دونوں پارٹنر ز پر ان کے سرمایہ کے لحاظ سے نقصان عائد ہوگا ۔
کسی شریک پر اس کے سرمایہ سے زیادہ نقصان کی شرط لگانے سے شرکت فاسد نہیں ہوتی بلکہ خود شرط باطل ہے ، اس سے متعلق امام رضی الدین محمد بن محمد الحنفی السرخسی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 571ھ فرماتے ہیں:
”اشترکا فجاءاحدهما بالف والآخر بالفین علی ان الربح والوضیعة نصفان، فالعقد جائز، و الشرط فی حق الوضیعة باطل، فان عملا وربحا، فالربح علی ما شرطا، وان خسرا فالخسران علی قدر راس فی مالهما ۔۔ و ھذا الشرط لا یکون مفسدا للعقد “
یعنی : دو افراد نے اس طرح شرکت کی کہ ایک نے ایک ہزار اور دوسرے نے دو ہزارملائے اس شرط پر کہ نفع و نقصان آدھا آدھا ہوگا تو عقد شرکت جائز ہے اور نقصان کے متعلق شرط باطل ہوجائے گی پھر اگر ان دونوں کے شرکت میں نفع ہوا تو وہ نفع مشروط طریقے پر تقسیم ہوگا اور اگر نقصان ہوا تو نقصان ان کے سرمایہ کے تناسب کے لحاظ سے ہوگا۔ ۔۔اور یہ نقصان کی شرط عقد کو فاسد نہیں کرے گی ۔(المحيط رضوی ،جلد 6،صفحہ84،دار الکتب العلمیہ بیروت )
شرکت عنان میں ورکنگ پارٹنر کے لئے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کرنا ، جائز ہے جبکہ نقصان ہمیشہ سرمایہ کے تناسب سے ہوگا ،اس سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے :
”لو کان المال منھما فی شرکۃ العنان والعمل علی احدھما۔۔۔و ان شرطا الربح للعامل اکثر من راس مالہ جاز علی الشرط۔۔والوضیعۃ ابدا علی قدر رؤوس اموالھما “
یعنی:اگر شرکت عنان میں سرمایہ دونوں شریک کا ہو اور کام ایک ہی پر مشروط ہو، اور کام کرنے والے پارٹنر کے لئے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع شرط ہو تو اس شرط پر شرکت کرنا جائز ہے ،اور نقصان ہمیشہ سرمایہ کی مقدار کے مطابق تقسیم ہوگا ۔(فتاوی عالمگیری،جلد2،صفحہ 336،دارا لکتب العلمیہ بیروت )
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کریگا اور نفع دونوں۔۔ برابر لیں گےیا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائز ہے ۔(بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 499،مکتبۃ المدینہ )
نقصان سے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’نقصان جو کچھ ہوگا وہ راس المال کے حساب سے ہوگا، اس کے خلاف شرط کرنا باطل ہے۔(بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 491،مکتبۃ المدینہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-238
تاریخ اجراء:21ذی القعدہ 1445ھ/29مئی 2024ء