کیا کسی چیز کی رسید اپنے نام پر بنوانا قبضہ شمار ہوگا؟

رسید اپنے نام پر بنوانا قبضہ شمار ہوگا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید میرے پاس آتا ہے اسے فریزر یا موٹر سائیکل لینی ہے ، وہ مجھ سے اس کے لئے قرض مانگتا ہے ۔ میں زید سے کہتا ہوں کہ میں آپ کو مارکیٹ سے فریزر نقد لے کر دیتا ہوں،آپ کو جو قسطیں (Installment) اور نفع (Profit)  مارکیٹ میں دینا ہے وہ مجھے دے دینا، وہ اس پر راضی ہو کر میرے ساتھ مارکیٹ جاتا ہے، میں اسے نقد میں فریزر یا موٹرسائیکل خرید کر دے دیتا ہوں، اس صورت میں شرعی حکم کیاہوگا؟ اور جو قبضہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس قبضہ کرنے سے کیا مراد ہے؟کیا مجھے وہ موٹرسائیکل ایک دو دن کیلئے گھر لے جا کر پھر زید کو دینی ہوگی؟یا یہ مراد ہے کہ مجھے اپنے ہی نام کی رسید بنانی چاہیے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ کا زید کے ساتھ خود مارکیٹ جا کر نقد فریزر یا موٹرسائیکل خریدنا، اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد نفع رکھ کر زید کو بیچنا جائز ہے ، اصطلاح میں یہ معاملہ ”عقدِمرابحہ“ کہلاتا ہے ۔ پوچھی گئی صورت میں قبضہ کرنے کیلئے موٹرسائیکل ایک دو دن کیلئے گھر لے جانا ضروری نہیں ہے بلکہ اتنا بھی کافی ہے کہ فریزر یا بائیک سامنے موجود ہو اور دوکاندار   فریزر یا بائک پر قبضہ کرنے کا اختیار دے دے یعنی یوں کہے اپنا مال لے جاؤ اور کیفیت یہ ہو کہ آپ لے جانے پر قادر ہوں  اور  قبضہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو، اس طرح قبضہ کرنے کو فقہی اصطلاح میں ”تخلیہ“کہتے ہیں۔ جب آپ کا قبضہ ثابت ہوگیا خواہ تخلیہ کے ذریعہ ہوا ہو یا فزیکلی اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے سے ہوا ہو ، تو اس کے بعد زید کو آپ یہی چیز بیچیں گے تو اپنےمال پر قبضہ کرنے کے بعد بیچنے کا تقاضا  پورا ہوجائے گا اور آپ کا وہ چیز آگے بیچنا جائز ہوگا۔

فقط اپنے نام کی رسید بنوانے سے شرعی قبضہ شمار نہیں ہوگا۔جب کوئی شخص سامنے والے کو اپنے مال کی لاگت بتا کر فروخت کرنے کا پابند ہو تو ایسی خریدو فروخت کو بیع مرابحہ کہتے ہیں، آپ نے سوال میں جو تفصیل ذکر کی ہے،یہ ایسا ہی معاملہ ہے اور یہ طریقہ سود سے بچنے کا ایک بہترین حل ہے ۔البتہ یہ ضروری ہے کہ جب بھی خرید وفروخت ہو اس کے بنیادی تقاضے اور شرائطِ جواز پورے کرنا ضروری ہے۔

مرابحہ کی تعریف:

صاحب ہدایہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

”المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الاول بالثمن الاول مع زيادة ربح“

یعنی: بندہ عقدِ اول میں  ثمنِ اول کے ساتھ جس چیز کا مالک بنا ہے، اس میں نفع رکھ کر آگے   بیچنے کو مرابحہ کہتے ہیں۔( الهداية ،جلد 3 ،صفحه56،مطبوعہ بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”جو چیز جس قیمت پر خریدی جاتی ہے اور جو کچھ مصارف اُس کے متعلق کیے جاتے ہیں ان کو ظاہر کرکے اس پر نفع کی ایک مقدار بڑھا کر کبھی فروخت کرتے ہیں اس کو مرابحہ کہتے ہیں۔“ (بہار شریعت،جلد2،صفحہ739، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

منقولی چیز  (Movable) کی بیع، کیلئے قبضہ ضروری ہے،قبضے سے پہلے اس کی بیع ناجائز ہے:

ہدایہ کی شرح البنایہ میں ہے:

”بيع المنقول قبل القبض لا يجوز بالاجماع“

یعنی: فقہاء کرام کا اس پر  اجماع ہے کہ منقولی چیز  قبضے سے پہلے بیچنا، ناجائز ہے۔(البنایہ شرح الھدایہ، جلد 8، صفحہ 229، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ)

صدرالشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”مبیع اگر منقولات کی قسم سے ہے تو بائع کا اُس پر قبضہ ہونا ضرور ہے ، قبل قبضہ کے چیز بیچ دی بیع ناجائزہے۔“ (بہار شریعت،جلد2،صفحہ625، مکتبۃ المدینہ کراچی)

مال اُدھار بیچنے کی صورت میں قیمت کی ادائیگی کی مدت بھی طے ہونا ضروری ہے:

تنویر الابصار و در مختار میں ہے:

”(وصح بثمن حال) وهو الاصل (ومؤجل الى معلوم)لئلا يفضی إلى النزاع“

یعنی: نقد ثمن کے ساتھ بیع درست ہے  کہ یہی اصل ہے اور موخر ثمن کے ساتھ بھی بیع درست ہے جبکہ معلوم مدت تک موخر کیا جائے تاکہ معاملہ جھگڑے کی طرف نہ جائے۔(تنویر الابصار و در مختار، جلد 7،  صفحه 49، مطبوعہ کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے:”بیع میں کبھی ثمن حال ہوتا ہے یعنی فورا ً دینا اور کبھی مؤجل یعنی اُس کی ادا کے لیے کوئی میعاد معین ذکر کردی جائے کیونکہ میعاد معین نہ ہوگی تو جھگڑا ہوگا۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ626،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

صدرُ الشریعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ مشتری کے مبیع پر قبضہ کرنے سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:”بائع نے مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کر دیا کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کر سکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانع نہ ہو اور مبیع و مشتری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو تو مبیع پرقبضہ ہو گیا۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ641،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0156

تاریخ اجراء: 29 رجب المُرجب 1445 ھ/10 فروری  2024   ء