
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2046
تاریخ اجراء: 06 جمادی الاخریٰ 1446 ھ/09 دسمبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک جنازے پر میت کو دفن کرنے کے بعد تختوں پر گارا لگانے کے بعد تختوں کے چاروں کناروں پر انگلیاں رکھ کر آخری پارے کی دس سورتوں کی تلاوت اور سورہ بقرہ شریف کا اول اور اخری رکوع پڑھا گیا جس کی وجہ سے دور کے لوگوں کو مٹی ڈالنے کے لئے کافی انتظار کرنا پڑا اور کُچھ لوگ اس تاخیر کی وجہ سے چلے گئے، اب سوال یہ ہے کے ان کامٹی ڈالنے سے پہلے تلقین کرنا کیسا ہے جس کی وجہ سے مٹی ڈالنے والوں کو کافی انتظار کرنا پڑے جبکہ اکثر جگہوں پر تلقین مٹی ڈالنے کے بعد کی جاتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
تلقین کا درست طریقہ یہ ہے کہ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد کی جائے، یونہی قرآن پاک کی تلاوت کرنی ہو تو وہ بھی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد کی جائے، جنہوں نے اس کے خلاف کیا، ان کو سمجھایا جائے۔
تلقین کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”دفن کے بعد مردہ کو تلقین کرنا، اہل سنت کے نزدیک مشروع ہے۔۔۔ حدیث میں ہے: حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں: جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور اس کی مٹی دے چکو تو تم میں ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر کہے: یا فلاں بن فلانہ (یعنی اس کا اور اس کی والدہ کا نام لے) وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا پھر کہے :یا فلاں بن فلانہ! وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا پھر کہے یا فلاں بن فلانہ وہ کہے گا، ہمیں ارشاد کر اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے گا۔ مگر تمہیں اس کے کہنے کی خبر نہیں ہوتی۔ پھر کہے:
"اذكر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله و أن محمدا رسول الله و أنك رضيت بالله ربا و بالإسلام دينا و بمحمد نبيا و بالقرآن إماما۔"
(ترجمہ: یاد کر وہ بات کہ جس کے ساتھ تو دنیا سے آیا یعنی اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور بیشک تو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد کے نبی ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔)
نکیرین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے، چلو ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے لوگ حجت سکھا چکے، اس پر کسی نے حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم) سے عرض کی، اگر اس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو؟ فرمایا:حوا کی طرف نسبت کرے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر و الضیاء فی الاحکام و غیرھا۔
بعض اجلہ ائمہ تابعین فرماتے ہیں: جب قبر پر مٹی برابر کرچکیں اور لوگ واپس جائیں تو مستحب سمجھا جاتا کہ میت سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہا جائے:
"یا فلان بن فلان قل لا الہ الا اللہ۔"
تین بار پھر کہا جائے:
قل ربی اللہ و دینی الاسلام و نبیی محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم۔“(بہارشریعت، ج 1، ص 850، 851، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم