ایک لاکھ درود پڑھنے کی منت مان کر ایک لاکھ ثواب والا درود پڑھنا

ایک لاکھ درود پاک پڑھنے کی منت مانی تو ایک لاکھ ثواب والا درود کافی ہوگا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ منت کے متعلق جو شرائط و قواعد بتائے گئے ہیں، ان کے مطابق درود پاک کی منت شرعی منت ہے یا نہیں ؟ نیز اگر کوئی شخص مثلاً: ایک لاکھ یا چھ لاکھ بار درود پاک پڑھنے کی منت مانتا ہے، پھر وہ ایک بار ایسا درود پڑھتا ہے کہ جس کو ایک بار پڑھنا ایک لاکھ یا چھ لاکھ کے برابر ہے، تو کیا اس طرح وہ منت پوری کرنے والا کہلائے گا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرعی اصول و ضوابط کی روشنی میں درود پاک پڑھنے کی منت، شرعی منت ہے، کیونکہ درود پاک عبادت مقصودہ ہے، جس کی جنس سے فرض موجود ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر زندگی میں ایک بار درود پاک پڑھنا فرض و لازم ہے ، لہٰذا جب  یہ شرعی منت ہے، تو اگر کسی نے ایک یا چھ لاکھ  بار درود پاک پڑھنے کی منت مانی تو اس منت کے پورا ہونے کے لیے اتنی ہی تعداد میں درود پاک پڑھنا لازم ہے، صرف ایک بار ایسا درود پڑھ دینا کہ جس کا ثواب ایک لاکھ یا چھ لاکھ کے برابر ہو، کافی نہ ہوگا، کیونکہ وہ ایک درود صرف ثواب میں ایک لاکھ کے برابر ہے، نہ کہ مقدار و تعداد میں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر و منت میں عرفی معنیٰ کا اعتبار ہوتا ہے اور جب کسی چیز کی منت مانتے وقت کوئی عدد ذکر کردیا جائے، تو عرفاً اس سے مقصود  تعداد ہوتی ہے، نہ کہ ثواب ، لہٰذا ایک یا چھ لاکھ درود پاک پڑھنے کی منت کی صورت میں اتنی ہی تعداد میں درود پڑھنا لازم ہوگا کہ یہی اس کا عرفی معنیٰ ہے۔

درود پاک پڑھنے کی منت شرعی منت ہے، چنانچہ بحر الرائق، حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح اور درمختار میں ہے،

بالفاظ متقاربۃ:”ولو قال: لله علي أن أصلي على النبي - عليه الصلاة والسلام - في كل يوم كذا يلزمه“

 ترجمہ: اور اگر کسی نے کہا کہ اللہ کے لیے مجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر روزانہ اتنی تعداد میں درود پڑھنا لازم ہے، تواتنی تعداد میں درود پڑھنا اس پر لازم ہوگا۔ (البحر الرائق، ج4، ص 322، دار الکتاب الاسلامی)(حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح، ج1، ص692، دار الكتب العلمية) (الدر المختارمع رد المحتار، ج03، ص738، دار الفکر، بیروت)

 درمختار كی عبارت کے تحت علامہ شیخ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ  ’’ تحفۃ الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں:

”(قولہ لزمہ)لانھا فرض عملی مرۃ فی العمر کما تقدم فی کتاب الصلوٰۃ فکان من جنسھا فرض و منہ یعلم انہ لا یشترط کون الفرض قطعیا“

 ترجمہ:درود پاک کی منت لازم ہوجائے گی، اس لیے کہ پوری زندگی میں ایک بار درود پاک پڑھنا فرض عملی ہے، جیساکہ یہ بات کتاب الصلوٰۃ میں گزرچکی ہے، تو یہ ایسی عبادت مقصودہ ہوئی جس کی جنس سے فرض موجود ہے اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس فرض کا قطعی ہونا ضروری نہیں۔ (تحفۃ الاخیار علی الدر المختار، ص 233، مخطوطۃ)

تحفۃ الاخیار کی اس عبارت کو  حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار اور رد المحتار میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، ج05، ص 452، دار الکتب العلمیۃ) (الدر المختارمع رد المحتار، ج03، ص738، دار الفکر، بیروت)

الفقہ علی المذاہب الاربعۃ میں احناف کے مؤقف کے متعلق ہے:

”وكذا إذا نذر الصلاة على النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم فإنه يجب الوفاء به على الصحيح، لأنه من جنسها فرضًا وهو الصلاة عليه في العمر مرة۔۔فالضابط الكلي في صحة النذر: أن يكون المنذور عبادة مقصودة من جنسها فرض“

 ترجمہ: اور اسی طرح اگر کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی منت مانی، تو صحیح قول کے مطابق اس منت کو پورا کرنا بھی لازم ہے، کیونکہ اس کی جنس سے فرض موجود ہے اور وہ پوری عمر میں ایک مرتبہ حضور علیہ السلام پر درود پڑھنا ہے، تو منت کے صحیح ہونے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ خود ایسی عبادت مقصودہ ہو جس کی جنس سے فرض ہو۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، ج02، ص 132، دار الكتب العلمية)                      

ایک لاکھ درود پاک پڑھنے کی منت کے لیے اتنی تعداد میں درود پڑھنا لازم ہے، صرف ایک بار زیادہ ثواب والا درود پڑھ دینا کافی نہ ہوگا، اس حوالے سے ایک جزئیہ تو وہی ہے جو اوپر بحر و در مختار و حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی کے حوالے سے ذکر کیا گیا کہ جس میں ”کل یوم کذا یلزمہ“ کہہ کر یہ بتایا کہ اس پر اتنے ہی درود پاک لازم ہیں، جیسا کہ ”کذا“ کے لفظ سے ظاہر ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ نذر و منت میں عرفی معنیٰ کا اعتبار ہوتا ہے، چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

وقالوا إن كلام كل عاقد وناذر وحالف وواقف يحمل على عرفه سواء وافق عرف اللغة أو لا“

 ترجمہ: اور فقہائےکرام نے ارشاد فرمایا کہ ہر عقد کرنے والے، منت ماننے والے، قسم کھانے والے اور وقف کرنے والے کا کلام اس کے عرف پر محمول ہوگا ، چاہے لغت کے عرف کے موافق ہو یا نہ ہو۔ (رد المحتار، ج05، ص289، دار الفکر، بیروت)

اور عدد ذکر کر دینے کی صورت میں عرفی معنیٰ حقیقی تعداد ہوتا ہے، نہ کہ ثواب، چنانچہ الفتوحات الر بانیۃ علی الاذکار النواویۃ میں خاص نذر شرعی کے متعلق حقیقی تعداد و ثواب کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

ان العدد هنا مقصود وقد صرح إمام الحرمين أنه لو نذر أن يصلي ألف صلاة لا يخرج عن عهدة نذره بصلاة واحدة في الحرم المكي وإن كانت تعدلها من حيث الثواب ومثله ما في معناه من الأخبار“

ترجمہ: نذر میں عدد مقصود ہوتا ہے اور امام الحرمین علیہ الرحمۃ نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی نے ایک ہزار نمازوں کی منت مانی، تو حرم مکی میں ایک نماز پڑھ دینے سے اپنی منت کی ذمہ داری سے نہ نکلے گا اگرچہ حرم کی ایک نماز ثواب کے اعتبار سے اس کے برابر ہے اور اسی کی مثل وہ حدیثیں ہیں، جو اس کے ہم معنی ہیں۔ (الفتوحات الربانیۃ، ج01، ص 195، جمعية النشر والتأليف الأزهرية)

 عمدۃ القاری اور مرقاۃ میں ہے،

واللفظ للآخر:”ثم المراد بالتضعيف السابق إنما هو في الأجر دون الإجزاء باتفاق العلماء، فالصلاة في أحد المساجد الثلاثة لا تجزئ عن أكثر من واحدة إجماعا، وما اشتهر على ألسنة العوام أن من صلى داخل الكعبة أربع ركعات تكون قضاء الدهر، باطل لا أصل لہ“

 ترجمہ:پھر تضعیف سابق سے مراد فقط اجر و ثواب کا زیادہ ہونا ہے نہ کہ شرعی طور پر کافی ہونا، اس پر علماء کا اتفاق ہے، تو تینوں مساجد (مسجد حرام، مسجد نبوی، بیت المقدس) میں سے کسی ایک میں پڑھی گئی ایک نماز ایک سے زیادہ نمازوں کی طرف سے کافی نہ ہوگی، اس پر اجماع ہے اور جو عوام کی زبان پر مشہور ہے کہ جو کعبہ کے اندر چار رکعتیں پڑھ لے تو پوری عمر کی نمازوں کے لیے کافی ہوگا، تو یہ باطل ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔ (عمدۃ القاری، ج07، ص 256، دار إحياء التراث العربي، بيروت)(مرقاۃ المفاتیح، ج02، ص 586، دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : HAB-0493

تاریخ اجراء  16 رجب المرجب 1446ھ/17جنوری 2025ء