دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ قسم کے کفارے میں ایک فقیرِ شرعی کو ایک دن میں ایک ہی صدقۂ فطر کی مقدار دی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دینا درست نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر ایک سے زائد قسم کے کفارے لازم ہوں، تو کیا ایک ہی دن میں ایک ہی فقیرِ شرعی کو ہر کفارے کے بدلے علیحدہ علیحدہ صدقۂ فطر دیا جا سکتا ہے؟ یعنی ایک فقیر کو پہلے کفارے کا صدقۂ فطر دینے کے بعد، اسی دن دوسرے کفارے کی نیت سے دوسرا صدقۂ فطر بھی دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! اگر کسی شخص پر ایک سے زائد قسم کے کفارے لازم ہوں تو وہ ایک ہی شرعی فقیر کو ایک ہی دن میں ایک کفارے کی نیت سے صدقۂ فطر ادا کرنے کے بعد، اسی فقیر کو اسی دن دوسرے کفارے کا صدقۂ فطر بھی دے سکتا ہے، بشرطیکہ ہر کفارے کا صدقۂ فطر علیحدہ علیحدہ دے۔ اگر دونوں کفاروں کا صدقۂ فطر ایک ساتھ ادا کرے گا، تو صرف ایک کفارے کی ادائیگی شمار ہوگی، البتہ جب وہ ہر کفارے کا صدقۂ فطر علیحدہ علیحدہ دے گا، تو ہر کفارے کی ادائیگی شرعاً صحیح اور معتبر ہوگی۔
چنانچہ ہدایہ ،کنز،بحر الرائق ،نہر الفائق وغیرہا میں ہے،
و النص للنھر : (و لو أطعم) المظاهر أي: ملك ما يطعم ناويا عن كونه (عن ظهارين) لمتحدة أو متعددة (ستين فقيرا كل فقير صاعا) من البر (صح عن) ظهار (واحد) عندهما۔۔۔ و قال محمد: يجوز عنهما، و على هذا الخلاف لو أعطى عشرا كل واحد صاعا عن يمينين و الخلاف مقيد بما إذا كان دفعة واحدة فإن كان بدفعات جاز اتفاقا ذكره الشارح و غيره
ترجمہ: اگر ظہار کرنے والے نے ساٹھ فقیروں کو دو ظہاروں کا کھانا کھلایا، یعنی کھانے کا مالک بنایا، اس نیت کے ساتھ کہ جو کچھ وہ کھانا دے رہا ہے وہ دو ظہاروں کی طرف سے ہے خواہ ایک ہی عورت سے دو ظہار ہوں یا ایک سے زائد عورتوں سے، اور اس نے ہر فقیر کو ایک صاع گیہوں دیے، تو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک اس سے صرف ایک ظہار کے کفارے کی ادئیگی ہوگی۔۔۔ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں (ظہاروں) کی طرف سے جائز ہے۔ اسی اختلاف پر یہ فرع مرتب ہوگی کہ اگر کسی نے دو قسموں کے کفارے کے بدلے دس فقیروں کو ایک ایک صاع دیا (شیخین کے نزدیک ایک ہی کفارہ ادا ہوگا جبکہ امام محمد کے نزدیک دونوں ادا ہو جائیں گے)۔ البتہ یہ اختلاف اسی وقت ہے جب ایک ہی بار (یعنی ایک ہی دفعہ، مکمل ایک صاع) دیا ہو، اگر الگ الگ وقتوں میں دیا تو (ائمہ ثلاثہ کے نزدیک یہ دینا) بالاتفاق جائز ہے، جیسا کہ شارح اور دیگر فقہاء نے ذکر کیا ہے۔(النھر الفائق، ج 2، ص 461، دار الكتب العلمية)
تفریق کی صورت میں جواز کے متعلق ہندیہ میں ہے:
لو أعطاه نصف الصاع عن إحدى الكفارتين، ثم أعطى النصف الآخر إياه عن الكفارة الأخرى جاز بالاتفاق كذا في غاية البيان
ترجمہ: اگر اس نے ایک ہی فقیر کو نصف صاع ایک کفارے کی نیت سے دیا، پھر دوسرانصف صاع اسی فقیر کو دوسرے کفارے کی نیت سے دیا، تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ یہی بات غایۃ البیان میں مذکور ہے۔(الفتاوی الھندیہ، ج 1، ص 514، دار الفکر)
بہار شریعت میں ہے: ”اس کے ذمہ دو۲ ظہار تھے خواہ ایک ہی عورت سے دونوں ظہار کیے یا دو عورتوں سے اور دونوں کے کفارہ میں ساٹھ مسکین کو ایک ایک صاع گیہوں دیديے تو صرف ایک کفارہ ادا ہوا اور اگر پہلے نصف نصف صاع ایک کفارہ میں ديے پھر اُنھیں کو نصف نصف صاع دوسرے کفارہ میں ديے تو دونوں ادا ہوگئے۔“ (بہار شریعت، حصہ 8، ص 216، مکتبہ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0658
تاریخ اجراء: 27ربیع الثانی 1447ھ/21اکتوبر 2025 ء