دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ منت کے چار نوافل ادا کریں، تو قعدہ اولیٰ میں درود شریف اور دعا پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اگر پڑھی جائے گی، تو اس کی وجہ کیا ہے، جبکہ واجب نماز جیسے وترمیں تو درود و دعا نہیں پڑھتے، بلکہ سنتِ مؤکدہ میں بھی پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حوالہ سے رہنمائی فرما دیجئے۔ سائل: سہیل رفاق مدنی (جامعۃ المدینہ ، گوجرخان)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
منت کے چار رکعتی نوافل کے قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف اور دعا پڑھیں گے اور تیسری رکعت کا آغاز ثناء اور تعوذ سے کریں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ منت کی رکعات بنیادی طور پر نفل نماز ہے، جسے بندہ اپنے عمل سے (مخصوص شرائط کے ساتھ منت مان کر) خود پر واجب کر لیتا ہے اور ایسی عبادت "واجب لغیرہ" کہلاتی ہے، یعنی اسے ادا کرنا تو واجب ہوتا ہے، لیکن متعدد احکام میں یہ نفل کے حکم میں ہی باقی رہتی ہے اور چار رکعتی نوافل میں تشہد کے بعد درود و دعا اور تیسری رکعت کا آغاز ثناء و تعوذ سے کیا جاتا ہے، لہٰذا منت کی نماز میں بھی یہ حکم ان کے نفل کے حکم میں ہونے کی وجہ سے باقی رہے گا۔
واجب لعینہٖ و لغیرہٖ کے متعلق حاشیہ طحطاوی میں ہے:
’’ويكره التنفل بعد طلوع الفجراي قصدا،۔۔۔ ومثل النافلة في هذا الحكم ما وجب بايجاب العبد ويقال له الواجب لغيره كالمنذور وركعتي الطواف وقضاء نفل افسده، اما الواجب لعينه وهو ما كان بايجاب الله تعالى ولا مدخل للعبد فيه۔۔۔ فلا كراهة فيه‘‘
ترجمہ: طلوعِ فجر کے بعد قصداً نوافل شروع کرنا مکروہ ہے اور اس حکم میں وہ واجب بھی نفل کی مثل ہے جو بندے کے ایجاب سے واجب ہوا ہو اور اسے واجب لغیرہ کہتے ہیں، جیسے منت، طواف کی دو رکعات اور نفل کی قضا، جسے فاسد کر دیا تھا، بہرحال واجب لعینہٖ جسے اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہو، اس میں بندے کا دخل نہ ہو، اس کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 188، مطبوعہ بیروت)
واجب لغیرہ نفل سے ملحق ہے۔ تبیین الحقائق میں ہے:
’’كل ما كان واجبا لغيره كالمنذور وركعتي الطواف والذي شرع فيه، ثم أفسده ملحق بالنفل‘‘
ترجمہ: ہر واجب لغیرہ، جیسے منت اور طواف کی رکعات اور وہ نفل جسے شروع کر کے فاسد کر دیا، یہ (متعدد احکام میں)نفل سے ملحق ہیں۔ (تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 87، مطبوعہ ملتان)
العنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
’’وجوب المنذور بسبب من جهته: أي جهة الناذر۔۔۔ لا من جهة الشرع، فكان كالصلاة التي شرع فيها تطوعا‘‘
ترجمہ: منت واجب ہونے کا سبب منت ماننے والے کی طرف سے ہے،۔۔ شرع کی جانب سے نہیں، تو منت کی نماز کا حکم ویسا ہی ہے جیسے کوئی نفل نماز شروع کی ہو۔(العنایہ شرح ھدایہ، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 238، مطبوعہ دار الفکر)
منت اور عام نوافل کے قعدہ اولیٰ میں درود، یونہی تیسری رکعت ثناء پڑھیں گے۔ در مختار میں ہے:
’’(ولا يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذراً‘‘
ترجمہ: ظہر اور جمعہ کی چار رکعتی سنتِ قبلیہ اور بعدیہ کے قعدہ اولیٰ میں درود نہیں پڑھیں گے اورجب تیسری کے لئے کھڑے ہوں، توثناء سے آغاز نہیں کریں گےاور ان کے علاوہ بقیہ تمام چار رکعتی (سنتِ غیر مؤکدہ و نفل) نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودپڑھیں گے اور تیسری کو ثناء و تعوذ سے شروع کریں گے، اگرچہ منت کی نماز ہو۔ (در مختار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 16، مطبوعہ بیروت)
منت کی نماز بنیادی طور پر نفل ہے، اسے اپنے اوپر واجب کیا جاتا ہے۔ در مختار کی عبارت "لو نذرا" کے تحت رد المحتار اور حاشیہ طحطاوی علی الدر میں ہے:
والنظم للثانی: ’’لانہ نفل، عرض علیہ الافتراض او الوجوب‘‘
ترجمہ: کیونکہ یہ نفل نماز ہے، جس پر فرضیت یا وجوب طاری ہو ا ہے۔(حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 286، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: چار رکعت والے نوافل کے قعدۂ اولیٰ میں بھی درود شریف پڑھے اور تیسری رکعت میں سُبْحٰنَکَ اور اَعُوْذُ بھی پڑھے، بشرطیکہ دو رکعت کے بعد قعدہ کیا ہو ورنہ پہلا سُبْحٰنَکَ اور اَعُوْذُ کافی ہے۔ منت کی نماز کے بھی قعدۂ اولیٰ میں درود پڑھے اور تیسری میں ثنا و تعوذ۔(بہار شریعت، حصہ 4، صفحہ 667، مکتبۃ المدینہ، کراچی )
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7653
تاریخ اجراء: 03ربیع الثانی 1447ھ/27 ستمبر 2025 ء