دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے روزہ رکھنے کی منت مانی ہو مثلاً یوں کہا کہ "اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں ایک روزہ رکھوں گا" تو کیا کام پورا ہونے کے بعد روزہ رکھا جائے گا یا پہلے بھی رکھ سکتے ہیں اور پہلے رکھنے میں منت کے لئے کفایت کر جائے گا؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں کام ہوجانے سے پہلے روزہ رکھنا منت کے لئے کافی نہیں ہو گا اور رکھ لیا تو یہ نفلی ہوگا، منت پوری ہونے کے بعد دوبارہ روزہ رکھنا ہوگا، اس لئے کہ اگر منت کو کسی شرط پر معلق کردیا ہو تو شرط کے پائے جانے کے بعد منت لازم ہوتی ہے، لہذا جب کام ہوا ہی نہیں ،تو منت واجب بھی نہیں ہوئی، تو اس کو ادا کرنا محض نفل ہوگا۔
تنویر الابصار و الدر المختار میں ہے
(بخلاف) النذر (المعلق) فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط
ترجمہ: بخلاف نذرِ معلق کے کہ اسے شرط کے پائے جانے سے پہلے ادا کرنا درست نہیں۔
(فإنه لا يجوز تعجيله)
کے تحت رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
لأن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال بل عند وجود شرطه كما تقرر في الأصول، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل وجود سببه فلا يصح
ترجمہ: کیونکہ کسی شرط پر معلق نذر فی الحال سبب نہیں بنتی بلکہ شرط کے پائے جانے کے وقت بنتی ہے جیساکہ اصول میں ہے، لہذا اگر پہلے ادا کرنا جائز ہو تو اس کے سبب کے وجود سے پہلے ہی اس کا وقوع ہوجائے گا، یہ درست ہی نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 436، 437، طبع: بیروت)
ہاں! ایسی صورت میں پہلے والے روزے نفل ہوجائیں گے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے
إن كان معلقا بشرط نحو أن يقول: إن شفى اللہ مريضي، أو إن قدم فلان الغائب فلله علي أن أصوم شهرا، أو أصلي ركعتين، أو أتصدق بدرهم، و نحو ذلك فوقته وقت الشرط، فما لم يوجد الشرط لا يجب بالإجماع.و لو فعل ذلك قبل وجود الشرط يكون نفلا
ترجمہ: اگر نذر کسی شرط سے معلق ہو مثلاً یوں کہا کہ "اگر اللہ میرے مریض کو شفا دے یا فلاں غائب آجائے، تو اللہ کے لئے مجھ پر ایک مہینے کے روزے رکھنا ہے، یا دو رکعتیں پڑھنی ہیں، یا ایک درہم صدقہ کرنا ہے" تو شرط کے وجود کا وقت ہی اس کا وقت ہے، جب تک شرط نہیں پائی جاتی اس وقت تک بالاجماع یہ نذر لازم بھی نہیں ہوگی اور اگر شرط کے وجود سے پہلے ہی اس فعل کو کرلیا تو نفل ہوجائے گا۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 93، طبع: بیروت)
بہار شریعت میں ہے ”معلّق میں شرط پائی جانے سے پہلے منت پوری نہیں کر سکتا، اگر پہلے ہی روزے رکھ لیے بعد میں شرط پائی گئی تو اب پھر رکھنا واجب ہوگا، پہلے کے روزے اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 1018، طبع: مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4448
تاریخ اجراء: 25 جمادی الاولٰی 1447ھ / 17 نومبر 2025ء