دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے یوں منت مانی کہ میں ہر جمعرات کو چھوٹے بچوں میں بیس روپے کی چیز بانٹوں گی، لیکن مدت ذکر نہیں کی کہ کتنے عرصے تک ایسا کروں گی۔ تو اب ایسی صورت میں کیا پوری زندگی بچوں میں چیز بانٹنی ہوگی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بچوں میں چیزیں بانٹنا کوئی عبادتِ مقصودہ نہیں، بلکہ محض ایک نیکی اور احسان ہے، اس لیے یہ شرعی منت کے دائرے میں داخل ہی نہیں، لہذا پوری زندگی تو کیا، اصلاً اس منت کا پورا کرنا ہی لازم نہیں۔ البتہ اگر اپنی نیت کو پورا کرتے ہوئے جب تک توفیق ملے، ہر جمعرات کو چیزیں بانٹ دے، تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
أن النذر لا يصح إلا بشروط أحدها أن يكون الواجب من جنسه شرعا
ترجمہ: منت چند شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی ہے، وہ واجب کی جنس سے ہو۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب النذر، صفحہ 229، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ردالمحتار علی الدر المختار میں ہے:
و فی البدائع ومن شروطہ أن یکون قربۃ مقصودۃ فلایصح النذر بعیادۃ المریض و تشیع الجنازۃ و الوضوءو الاغتسال و دخول المسجد و مس المصحف، و الاذان و بناء الرباطات و المساجد و غیر ذلک و ان کانت قربالانھا غیر مقصودۃ
ترجمہ: بدائع میں ہے منت کی شرائط میں سے ایک شرط ہے کہ وہ کام عبادت مقصودہ ہو،لہذا مریض کی عیادت کی منت،جنازے کے ساتھ جانے،وضو، غسل کرنے، مسجد میں داخل ہونے، قرآن چھونے، اذان دینے، مسجدا ور پل بنانے کی منت وغیرہ شرعی منت نہیں ہے، کیونکہ یہ کام اگر چہ نیکی کے ہیں، مگر یہ عبادتِ مقصودہ نہیں ہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 5، مطلب: فی احکام النذر، صفحہ 537،دار المعرفۃ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا: (۱) زید نے نذرمانی کہ اگر میرا فلاں کام اﷲ کردے گا، تو میں مولود شریف یا گیارھویں شریف وغیرہ کروں گا، تو کیا اس کھانے یا مٹھائی کو اغنیاء بھی کھاسکتے ہیں؟ (۲) زید نے یہ نذر مانی کہ اگرمیرا کام ہوجائے گا تو میں اپنے احباب کو کھانا کھلاؤں گا، تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہوگا یانہیں؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ دونوں سوالوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”(۱) مجلسِ میلاد و گیارھویں شریف میں عرف و معمول یہی ہے کہ اغنیاء و فقراء سب کو دیتے ہیں، جو لوگ ان کی نذر مانتے ہیں، اسی طریقہ رائجہ کا التزام کرتے ہیں، نہ یہ کہ بالخصوص فقراء پر تصدّق، تو اس کا لینا سب کو جائز ہے، یہ نذورِ فقہیہ سے نہیں۔واللہ تعالٰی اعلم۔ (۲) یہ کوئی نذر شرعی نہیں، وجوب نہ ہوگا، اور بجالانا بہتر، ہاں اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں، تو وجوب ہوجائے گا۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 584، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”مساجد میں شیرینی لے جائیں گے یا نمازیوں کو کھلائیں گے، یہ کوئی نذرِ شرعی نہیں، جب تک خاص فقراء کے لئے نہ کہے، اسے امیر فقیر جس کو دے، سب لے سکتے ہیں۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 585، رضا فاؤنڈیشن، لاہور(
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-908
تاریخ اجراء: 06 ربیع الاخر 1447ھ / 30 ستمبر 2025ء