
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک عزیز کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا، تو انہوں نے یوں منت مانی: ”اگر میرا بیٹا صحت یاب ہوگیا، تو میں ایک بکرا اللہ کی راہ میں صدقہ کروں گا۔“ اب اللہ کےفضل سے ان کا بیٹا صحت یاب ہو چکا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا منت پوری کرنے کے لیے بکرا ہی صدقہ کرنا ضروری ہے یا بکرے کی بجائے اس کی قیمت بھی صدقہ کرسکتے ہیں ،نیز ان کے پاس ایک بکری موجود ہے ، اگر اس کو صدقہ کردیں تو کیا منت پوری ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کے مطابق کسی چیز کو صدقہ کرنے کی منت ماننے سے خاص وہ چیز ہی صدقہ کرنا لازم نہیں ہوتی،بلکہ اس چیز کی بجائے اس کی قیمت یا قیمت کے برابر کوئی دوسری چیز بھی صدقہ کردینے سے منت پوری ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ پاک کی راہ میں صدقہ کرنے سے مقصود حصول ثواب اور فقراء کی حاجت کو پورا کرنا ہوتا ہے،تو اس کے لیےمنت مانی ہوئی چیز کی جگہ اس کی قیمت یا قیمت کےبرابر کوئی دوسری چیز صدقہ کردینے سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔لہذا پوچھی گئی صورت میں منت پوری کرنے کے لیے بکرا ہی صدقہ کرنا ضروری نہیں ،بلکہ بکرے کی جگہ اس کی قیمت یا قیمت کے برابر کوئی دوسری چیز یا آپ کے عزیز کے پاس موجود بکری بھی اگر صدقہ کردیتے ہیں، تو منت پوری ہوجائے گی۔
منت مانی ہوئی چیز کی جگہ اس کی قیمت یا قیمت کےبرابر کوئی دوسری چیز بھی صدقہ کرسکتے ہیں،چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر
ترجمہ: زکوۃ، عشر، خراج، فطرہ اور منت میں قیمت دینا بھی جائز ہے ۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء)مذکورہ عبارت کے تحت لکھتے ہیں:
كأن نذر أن يتصدق بهذا الدينار فتصدق بقدره دراهم أو بهذا الخبز فتصدق بقيمته جاز عندنا كذا في فتح القدير ۔۔۔ النذر بالتصدق بشاتين وسطين فتصدق بشاة بقدرهما جاز؛ لأن المقصود إغناء الفقير وبه تحصل القربة و هو يحصل بالقيمة
ترجمہ: جیسے یہ منت مانی کہ یہ دینار صدقہ کروں گا، پھر اس کی مالیت کے برابر دراہم صدقہ کردئیے یا منت مانی کہ یہ روٹی صدقہ کروں گا،پھر اس کی قیمت صدقہ کردی، تو ہمارے نزدیک جائز ہے ،جیساکہ فتح القدیر میں ہے۔ (یونہی) دو درمیانی درجہ کی بکریاں صدقہ کرنے کی منت مانی ،پھر ایک ایسی بکری جو ان دونوں کی قیمت کے برابر ہے ، صدقہ کی، تو یہ جائز ہے، کیونکہ (صدقہ کرنے میں )مقصود فقیر کو غنی کرنا اور قربت کا حصول ہے اور یہ مقصد قیمت دینے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ (رد المحتار علی در مختار،جلد 02،صفحہ 286،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)
دررالحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:
(نذر بتصدق عشرة دراهم خبزا فتصدق بغير الخبز) مما يساوي عشرة دراهم (أو) تصدق (بثمنه جاز) أما الأول فلأن خصوص الخبز لا مدخل له في دفع الحاجة وأما الثاني فلأن الثمن أنفع للفقير
ترجمہ :کسی نے منت مانی کہ دس درہم کی روٹیاں صدقہ کروں گا،پھر اس نے روٹی کے علاوہ کوئی اور چیز صدقہ کر دی جو دس درہم کے برابر تھی، یا اس نے دس درہم کی قیمت صدقہ کردی تو یہ جائز ہے،بہرحال پہلا (روٹی کے علاوہ کوئی چیز صدقہ کرنا جائز)اس لیے کہ خاص طور پر روٹی کی تعیین ضرورت پوری کرنے میں کوئی خاص اثر نہیں رکھتی، اور دوسرا (قیمت صدقہ کرنا جائز) اس لیے کہ قیمت فقراء کے لیے زیادہ نفع مند ہے۔(درر الحکام شرح غرر الاحکام، جلد 02، صفحہ 43، دار إحياء الكتب العربية)
کسی چیز کو صدقہ کرنے کی منت ماننے میں اصل صدقہ کرنا ہے ،معین چیز کا ہی صدقہ ضروری نہیں ، چنانچہ امام اہلسنت، سیدی اعلی حضرت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) اس مسئلہ پر تفصیلی کلام فرماتے ہوئے اس پر تفریعات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هذه فائدةٌ نفيسةٌ وسيأتي آنفاً...وعليه رأيت تتفرّع الفروع ففي "الهندية":(أوجب أن يتصدّق غداً بدراهم فتصدّق بها اليوم أجزأه في قولهم، "حاوي القدسي".إن نجوت من هذا الغمّ فعليّ أن أتصدّق بعشرة دراهم خبزاً فتصدّق بعين الخبز أو بثمنه يجزيه؛ لأنّ القربة التصدّق، وتعيين الخبز ليس قربة مقصودة. ثُمّ قال: مالي صدقة لكلّ مسكين درهم فدفع الألف إلى مسكين واحد جاز،"خانية"؛لأنّ التفريق ليس قربة مقصودة ۔۔۔ ملتقطا
ترجمہ :یہ ایک نفیس فائدہ ہے، عنقریب یہ آگے آئے گا۔اور اس اصول پر میں نے کئی فروعات دیکھیں؛ہندیہ میں ہے:اگر کسی نے منت مانی کہ وہ کل کچھ درہم صدقہ کرے گا ،پھر اس نے آج ہی صدقہ کردئیے تو فقہاء کے قول کے مطابق یہ کافی ہوجائے گا،حاوی قدسی میں ہے :اگر کسی نے منت مانی کہ میں اس غم سے نجات پاجاؤں ،تو مجھ پر لازم ہے کہ دس درہم کی روٹی صدقہ کروں، پھر اس نے بعینہٖ وہ روٹیاں یا ان کی قیمت صدقہ کر دی، تو یہ کافی ہو جائے گا،کیونکہ اصل نیکی صدقہ کرنا ہے اور روٹی کی تعیین عبادت مقصودہ نہیں۔پھر اس نے کہا میری طرف سے ہر مسکین کو ایک درہم صدقہ ہے، پھر اس نے پورے ہزار درہم ایک ہی مسکین کو دے دیے، تو یہ جائز ہے"خانیہ"،کیونکہ صدقہ کو تقسیم کرنا عبادت مقصودہ نہیں ہے۔(ملتقطا از جد الممتار، جلد 04، صفحہ 275، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR-0035
تاریخ اجراء: 29 محرم الحرام 1447 ھ/25جولائی 2025 ء