دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ مجھے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ چونکہ دس صدقہ فطر کی رقم آج کل تقریباً دو، ڈھائی ہزار روپے بنتی ہے، تو کیا میں یہ رقم کسی اور کو دینے کی بجائے اپنی بہن کو دے سکتا ہوں؟ اس سے کفارہ بھی ادا ہوجائے گا اور میری بہن کی مدد بھی ہو جائے گی۔
ایک عالم صاحب کا کہنا ہے کہ کفارے کی رقم دس لوگوں کو دینا ضروری ہے، ایک شخص کو دینے سے کفارہ ادا نہیں ہوتا، کیونکہ قرآنِ پاک میں دس مساکین کو دینے کا حکم ہے۔ اس بارے میں میری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ آیا ان کا کہنا درست ہے؟ کیا ایک ہی شخص کو کفارے کی ساری رقم ادا نہیں کی جا سکتی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر آپ کی بہن شرعی فقیر ہیں اور کوئی مانع (جیسے سید ہاشمی وغیرہ ہونا) موجود نہیں تو قسم کے کفارے کی رقم بہن کو دی جا سکتی ہے۔ البتہ ساری رقم ایک ہی دن میں دینا درست نہیں، کیونکہ ایک دن میں ایک شخص کو صرف ایک صدقہ فطر کی مقدار ہی دی جا سکتی ہے۔لہٰذا اگر بہن ہی کو ساری رقم دینا چاہتے ہیں تو دس دن تک روزانہ ایک صدقہ فطر کی مقدار انہیں دیں، اس طرح کفارہ ادا ہو جائے گا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ
اپنی بہن کو قسم کے کفارے کی رقم دینا جائز ہے، کیونکہ قسم کے کفارے کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے مصارف ہیں۔ جس طرح شرعی فقیر ہونے کی صورت میں بہن کو زکاۃ دینا جائز بلکہ افضل ہے، اسی طرح اسے قسم کے کفارے کی رقم دینا بھی جائز بلکہ افضل ہے۔
البتہ ایک شخص کو ایک دن میں اکٹھی دس صدقہ فطر کی رقم یا ایک ہی دن میں ایک سے زائد صدقہ فطر کی رقم دیں گے تو صرف ایک ہی صدقہ فطر ادا ہوگا، کیونکہ اس کفارے میں ایک دن میں ایک شخص کو صرف ایک ہی صدقہ فطر ادا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر ایک ہی شخص کو کفارے کی ساری رقم دینا چاہیں تو دس دنوں میں دینا ضروری ہے۔
رہا یہ اشکال کہ قرآنِ پاک میں دس مساکین کو کفارہ دینے کا حکم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ“
ترجمہ: ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا۔(سورۃ المائدہ، آیت: 89) اور بظاہر ایک ہی شخص کو کفارے کی پوری رقم دینا، چاہے وہ دس مختلف دنوں میں ہو، اس حکم کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ دس رو زتک ایک شرعی فقیر کو دینا حکماً دس فقراء کو دینا ہے۔ اس لیے کہ کفارے کی اصل غرض حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے، اور کسی محتاج کو ایک صدقہ فطر کی مقدار دینے سے اس کی اس روز کی حاجت پوری ہو جاتی ہے، لہٰذا اسے اسی روز ایک سے زائد صدقہ فطر کی مقدار دینا ایسے ہی ہے جیسے غیر محتاج کو دینا، تو یوں ایک دن میں ایک فقیر کو ایک سے زائد صدقہ فطر کی مقدار دینا درست نہیں۔ لیکن ہر دن نئی حاجات اور ضروریات کو جنم دیتا ہے، اسی بنا پر شریعت نے ہر دن کو ایک نئی حاجت کا قائم مقام ٹھہرایا۔ چنانچہ جو شخص کل محتاج تھا اور حاجت پوری ہونے کے بعد غیر محتاج ہوگیا تھا، آج نئی حاجت کی بنا پر پھر محتاج شمار ہوگا، اور اس طرح گویا وہ دوسرا محتاج شخص قرار پائے گا۔ اس ترتیب سے اگر دس دن تک ایک ہی شخص کو کفارہ دیا جائے تو یہ حکماً دس فقیروں کو دینے کے مترادف ہوگا اور قرآن کریم کے مقصد یعنی دس فقراء کی حاجت روائی پر حکماًعمل ہوجائےگا۔
اب تمام تر تفصیل پر بالترتیب دلائل ملاحظہ فرمائیں:
قسم کے کفارے کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں۔ صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ قسم کے کفارے کے بیان میں لکھتے ہیں: ” کفارہ انہیں مساکین کو دے سکتاہے جن کو زکوۃ دے سکتا ہے یعنی اپنے باپ ماں اولاد وغیرہم کو جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کفارہ بھی نہیں دے سکتا۔“ (بھار شریعت، حصہ9، ص311، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور بہن بھائی کو زکاۃ وصدقات دینا، نا صرف جائز بلکہ افضل ہے۔ بہار شریعت میں ہے: ”زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اوّلاً اپنے بھائیوں بہنوں کو دے ۔“ (بھار شریعت، حصہ5، ص933، ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ہاں اگر ایک ہی شخص کو سارا کفارہ ادا کرنا چاہیں تو دس دنوں میں ہر روز ایک صدقہ فطر دیں ، ایک دن میں ایک سے زائد نہیں دے سکتے۔ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”لو أعطى مسكينا واحدا في عشرة أيام كل يوم نصف صاع يجوز، ولو أعطاه في يوم واحد بدفعات في عشر ساعات، قيل يجزئ، وقيل لاوهو الصحيح لأنه إنما جاز إعطاؤه في اليوم الثاني تنزيلا له منزلة مسكين آخر لتجدد الحاجة“
ترجمہ: اگر کوئی شخص دس دن تک روزانہ ایک فقیر کو نصف صاع دے تو یہ جائز ہےاور اگر وہی شخص ایک ہی دن میں دس مختلف گھڑیوں میں اُسی فقیر کو نصف صاع بار بار دیتا ہے، تو اس میں اختلاف ہے، بعض نے کہا یہ کافی ہو جائے گا اور بعض نے کہا کافی نہ ہوگا اور یہی صحیح ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے دن دینا، اس لیے درست ہوا کہ ضرورت دوبارہ پیدا ہونے کی وجہ سے اسے ایک اور فقیر کے قائم مقام سمجھا گیا۔ (درمختار مع رد المحتار، ج3، ص725، دار الفکر)
بہار شریعت میں ہے: ”یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو یا ان کی قیمت کا مالک کردے یا دس ۱۰ روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روز بقدر صدقہ فطر دیدیا کرے۔“ (بھار شریعت، حصہ9، ص305، ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اگر ایک دن میں ایک ہی فقیر شرعی کو ایک سے زائد صدقہ فطر کی مقدار دی تو فقط ایک ہی صدقہ فطر ادا ہوگا، جیسا کہ درمختار میں ہے:
”(ولو أباحه كل الطعام في يوم واحد دفعة أجزأ عن يومه ذلك فقط) اتفاقا (وكذا إذا ملكه الطعام بدفعات في يوم واحد على الأصح) ذكره الزيلعي، لفقد التعدد حقيقة وحكما“
ترجمہ: اگر ایک دن میں اکھٹے دس دنوں کا کھانا مباح کر دیا تو بالاتفاق صرف اسی ایک دن کا ادا ہوگا۔اسی طرح اگر دس دن کا کھانا ایک ہی دن میں متفرق طور پر اس کی ملک کردیا تو بھی اصح قول کے مطابق ایک ہی دن کا ادا ہوگا، اسے علامہ زیلعی نے ذکر کیا، کیونکہ (ان دونوں صورتوں میں) تعدد فقراء(دس فقراء کی منصوص تعداد) حقیقتاً و حکماً دونوں طرح مفقود ہے۔ (الدر المختار ورد المحتار، ج3، ص480، دار الفکر)
نیز علامہ زیلعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” لو أعطى مسكينا واحدا كله في يوم واحد لا يجزيه إلا عن يومه ذلك۔۔ وهو الصحيح، ووجهه أن المعتبر سد خلته، وقد اندفعت حاجته في ذلك اليوم فالصرف إليه بعد ذلك يكون إطعام الطاعم فلا يجوز كما لايجوز دفعها إلى الغني“
ترجمہ: اگر کسی نے ایک ہی دن میں سارا کفارہ ایک ہی فقیر کو دے دیا تو وہ صرف اسی ایک دن کی طرف سے ادا ہوگا۔۔۔ اور یہی صحیح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل لحاظ فقیر کی حاجت پوری کرنے کا ہے، اور جب ایک دن کی حاجت پوری ہوگئی تو اس کے بعد دینا ایسا ہے جیسے پیٹ بھرے ہوئے کو کھلانا، جو جائز نہیں، جیسے مالدار کو دینا جائز نہیں۔ (تبيين الحقائق، ج3، ص12، مطبوعہ قاھرہ)
رہا یہ اشکال کہ قرآن پاک میں دس مساکین کو کفارہ ادا کرنے کا حکم ہے تو ایک شخص کو دس دن تک یہ کفارہ دینا کیسے درست ہے؟ اس اشکال اور اس کے جواب کو علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:
”وهل يشترط عدد المساكين صورة في الإطعام تمليكا وإباحة؟ قال أصحابنا: ليس بشرط وقال الشافعي رحمه الله شرط، حتى لو دفع طعام عشرة مساكين۔۔۔إلى مسكين واحد في عشرة أيام كل يوم نصف صاع۔۔أجزأ عندنا وعنده لا يجزيه إلا عن واحد واحتج بظاهر قوله جل شأنه (فكفارته إطعام عشرة مساكين) نص على عدد العشرة فلا يجوز الاقتصار على ما دونه۔۔۔(ولنا) أن في النص إطعام عشرة مساكين۔۔۔قد يكون صورة ومعنى بأن يطعم عشرة من المساكين عددا في يوم واحد أو في عشرة أيام، وقد يكون معنى لا صورة وهو أن يطعم مسكينا واحدا في عشرة أيام۔۔۔لأن الإطعام لدفع الجوعة وسد المسكنة، وله كل يوم جوعة ومسكنة على حدة لأن الجوع يتجدد، والمسكنة تحدث في كل يوم، ودفع عشر جوعات عن مسكين واحد في عشرة أيام في معنى دفع عشر جوعات عن عشرة مساكين في يوم واحد أو في عشرة أيام، فكان هذا إطعام عشرة مساكين معنى فيجوز “
ترجمہ: کیا کفارہ میں کھانا کھلانے کے لیے مساکین کی تعداد کا صورتاً پایا جانا (چاہے تملیک کی صورت ہو یا صرف کھانے کی اجازت دینے کی صورت) شرط ہے؟ ہمارے اَصحاب نے کہا: یہ شرط نہیں ہےلیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے شرط قرار دیا۔ اس بنا پر اگر کسی نے دس مساکین کا کھانا ایک ہی مسکین کو دس دن میں دیا، یعنی ہر دن نصف صاع، تو ہمارے نزدیک یہ کافی ہوگا، لیکن اُن کے نزدیک صرف ایک مسکین کا کفارہ ادا ہوگا اور باقی شمار نہیں ہوگا۔ انہوں نے دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش کیا(اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھلانا ہے)۔ اس آیت میں دس کی تعداد کو واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے، لہٰذا اس سے کم پر اکتفا کرنا درست نہیں۔۔۔ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے فرمان میں دس مساکین کو کھلانے کا ذکر ہے۔۔۔ یہ کبھی صُورۃً و معنًی ہوتا ہے یوں کہ دس مساکین کو ایک ہی دن میں یا دس دنوں میں کھانا کھلائے، اور کبھی معنًی ہوتا ہے لیکن صُورۃً نہیں جیسے ایک ہی مسکین کو دس دنوں تک کھانا کھلائے۔۔۔ کھلانے کا مقصد بھوک دور کرنا اور محتاجی ختم کرنا ہے، اور فقیر کے لیے ہر دن میں بھوک اور محتاجی الگ الگ ہوتی ہے، کیونکہ بھوک روزانہ تازہ ہوتی ہے اور محتاجی بھی ہر دن نئی پیدا ہوتی ہے۔ تو ایک فقیر کی بھوک دس دن تک روزانہ دور کرنا ایسے ہی ہے جیسے دس فقیروں کی بھوک ایک دن یا دس دن میں دور کرنا۔ اس طرح یہ معنوی طور پر دس مساکین کو کھلانے کے قائم مقام ہوگا، لہٰذا جائز ہے۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج5، ص104، 105، دار الکتب العلمیۃ)
اسی کو اختصار کے ساتھ علامہ شامی رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا:
” لأن المقصود سد خلة المحتاج، والحاجة تتجدد بتجدد الأيام، فتكرر المسكين بتكرر الحاجة حكما فكان تعددا حكما“
ترجمہ: کیونکہ مقصود محتاج کی احتیاج دور کرنا ہے، اور حاجت ہر روز از سر نو پیدا ہوتی ہے، تو حاجت کے نوپید ہونےسے مسکین کا حکماً تکرر ہوجاتا ہے اور یوں حکماً تعدد حاصل ہوجاتا ہے۔ (الدر المختار ورد المحتار، ج3، ص480، دار الفکر)
اور عمدۃ الرعایہ میں ہے:
”فالدفع الیہ فی الیوم الثانی کالدفع الی غیرہ“
ترجمہ: تو دوسرے دن دینا ایسا ہے گویا کسی دوسرے فقیر کو دینا۔ (عمدۃ الرعایہ علی شرح الوقایۃ، ج3، ص424، دار الکتب العلمیۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0644
تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی 1447ھ/30 ستمبر 2025 ء