کسی کپڑے میں نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی پھر پڑھ لی تو؟

خاص کپڑوں میں نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی، پھر ان کپڑوں میں پڑھ لی، تو کیا حکم ہے

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک شخص نے قسم کھائی کہ میں فلاں کپڑے پہن کر نماز نہیں پڑھوں گا، پھر اس نے وہی کپڑے پہن کر نماز پڑھ لی، تو کیا نماز ہوجائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نماز تو ہو گئی، البتہ قسم کا کفارہ لازم ہوا۔

واضح رہے کہ ہر بات پر قسم نہیں اٹھانی چاہئے، بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے کہ بلا وجہ قسمیں کھاتے رہتے ہیں، اس کے متعلق مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت قسم کے باب میں فرماتے ہیں: قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہےکہ قصد و بے قصد زبان سے جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی یہ سخت معیوب ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 298، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو صبح و شام دو وقت کا کھانا کھلائیں اور اس میں جن کو صبح کھانا کھلایا ان ہی کو شام میں بھی کھلائیں تب ہی کفارہ ادا ہوگایا دس مسکینوں کو متوسط درجے کے کپڑے دیں۔ البتہ کفارے کی ادائیگی میں اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے، تو کھانے کے بدلے میں ہر شرعی فقیر کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار برابر رقم دیں۔ واضح رہے کہ ساری رقم ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو نہیں دے سکتے بلکہ دس فقیروں کو الگ الگ دینی ہوگی یا ایک شرعی فقیر کو الگ الگ دس دن تک دینی ہوگی۔ نیز اگر کوئی شخص دس صدقہ فطر کی مقدار رقم دینے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ وہ لگاتار تین دن کے روزے رکھے۔

صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ قسم کے کفارے کے متعلق فرماتے ہیں: ”قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔۔۔ اور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انہیں کو شام کے وقت بھی کھلائے دوسرے دس مساکین کو کھلانے سے ادا نہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دسوں کو ایک ہی دن کھلادے یا ہر روز ایک ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلائے۔۔۔ اور کھلانے میں اباحت و تملیک دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو یا ان کی قیمت کا مالک کردے یا دس 10 روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روز بقدر صدقہ فطر دے دیا کرے۔۔۔ اگر غلام آزاد کرنے یا دس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو تو پےدرپے تین روزے رکھے۔“ (بہار شریعت، جلد 02، صفحہ 305، 308، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2240

تاریخ اجراء: 10 شوال المکرم 1446ھ / 09 اپریل 2025ء